قومی اسمبلی کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت و خدمات ڈاکٹر فیصل سلطان نے تحریری طور پر بتایا ہے کہ پاکستان کو شدید غذائی کمی کا سامنا ہے، لیکن حکومت کی جانب سے پالیسی تیار ہونے کے بعد مشترکہ مفادات کونسل اورمنصوبہ بندی کمیشن کی منظوری کے باوجود تاحال رقم جاری نہیں کی گئی. اس کے نتیجے میں انتہائی اہمیت کے حامل اس سنگین معاملے کو بہترکرنے کیلئے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے.
معاون خصوصی قومی صحت خدمات کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کی ہدایت پر نیشنل ہیلتھ ٹاسک فورس نے ایک جامع پی سی ون تیار کیا تھا جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں نشونما میں کمی کا باعث بننے والی ناقص غذائیت پر قابو پانا ہے۔ اس پی سی ون میں ملک کے 67 اضلاع کی نشاندھی کی گئی ہے جہاں بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ اور ان اضلاع میں ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنانے کیلئے کام کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق یہ پی سی ون صوبوں کی مشاورت کے بعد تیار کیا گیا ۔ اس پی سی ون کی وفاقی اکائیوں کے سب سے بڑے فورم مشترکہ مفادات کونسل نے بھی توثیق کردی، جس کے بعد 24 مئی 2021 کو سینٹرل ڈویلمپنٹ ورکنگ پارٹی( سی ڈی ڈبلیو پی) کے اجلاس میں یہ پی سی ون پیش کیا گیا اور منصوبہ بندی کمیشن نے اس کی منظوری دے دی لیکن آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود تاحال اس اہم پروگرام کیلئے فنڈز جاری نہیں کیئے گئے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ نیشنل نیوٹریشن سروے کے اعداد و شمار انتہائی خطرناک ہیں، اگر پانچ سال اور اس سے کم عمر 53 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہوں تو وہ کس طرح پڑھائی کھیل اور دیگر ذہنی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ کسی صورت ملک کی ترقی کیلئے اچھا نہیں ہوسکتا۔ جبکہ جو بات سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں پانچ سے دس سال تک کی عمر کے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کا کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں، اس صورت میں پاکستان کس طرح آنے والے دس سے پندرہ سالوں کیلئے منصوبہ بندی کرسکتا ہے اس بارے میں پالیسی ساز مکمل خاموش دکھائی دیتے ہیں۔
وزارت قومی صحت کی رپورٹ میں قومی اسمبلی کو مطمئن کرنے کیلئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کی وزارت گذشتہ پانچ سالوں کے دوران صوبوں کے محکمہ صحت، اقوام متحدہ کے اداروں اور ترقیاتی شراکت داروں سے مل کر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ لیکن ان اقدامات کے ذریعے کیا بہتری آئی ہے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کئے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 53 فیصد بچے خون کی کمی کا شکارہوں تو وہ کسی طور بھی اسکول میں اپنی تعلیم کے دوران دیگر صحتمند بچوں کی نسبت آگے نہیں بڑھ سکتے، ان کا کہنا ہے کہ یہ بچے بہتر صحت کے بغیر معاشرے میں مثبت کردار ادا نہیں کرسکتے