بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی کیخلاف ان تحقیقات کا آغاز اس وقت کیا گیا جب وہ 2011ء میں خیبر پختونخوا میں ڈائریکٹر جنرل نیب کے عہدے پر تعینات تھے۔
مصدق عباسی کے خلاف ایک شکایت خیبر پختونخوا پولیس افسر دلاور خان بنگش نے کی تھی جو وزارت قانون، انصاف اور پارلیمانی امور سے وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ذریعے موصول ہوئی تھی۔ اس دستاویز پر کرنل ریٹائرڈ سبحان صادق ملک کے دستخط تھے جو ان دنوں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ فنانس تھے۔
ان کے مطابق انھیں بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی کیخلاف سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ، عام شہریوں اور دیگر ذرائع سے متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سے بعض شکایات کو انتہائی سیریس قرار دیا گیا تھا۔
قومی احتساب بیورو ( نیب) کی سابق افسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی کیخلاف ان میں سے رسمی شکایت کو بغیر تفتیش کے ہی منسوخ کر دیا گیا تھا۔ ان کیخلاف یہ شکایت اگست 2011ء میں منظر عام پر آئی تھی جبکہ فصیح بخاری 17 اکتوبر 2011ء کو چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھال چکے تھے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بتایا کہ جب میں نے نیب کو جوائن کیا تو اس وقت بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی بھی وہاں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے۔ وہ ان دنوں ڈی جی خیبر پختونخوا تھے اور میری ان سے ہر ہفتے بورڈ میٹنگ کے دوران ملاقات ہوتی تھی۔
https://twitter.com/iamthedrifter/status/1486312172934373377?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1486312172934373377%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fthepakistandaily.com%2Fpm-khans-new-accountability-czar-was-investigated-by-nab-on-2-complaints%2F
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ شاید بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی کو سابق مشیر داخلہ واحتساب شہزاد اکبر کی جگہ پر اس لئے تعینات کیا گیا ہے کیونکہ وہ پاکستان میں چل رہے کئی کرپشن کیسز کے بارے میں جانتے ہیں۔ ان کی ریکوری کرنے کی صلاحیت شہزاد اکبر سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میری اس معاملے پر کافی لوگوں سے گفتگو ہوئی ہے، ان میں سے کچھ نے دعویٰ کیا ہے کہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی سابق چیئرمین منیر حفیظ اور طارق عباسی کے مفادات کیلئے کام کرتے رہے۔
کہا جاتا ہے کہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز سے متعلقہ مقدمات میں بھی ملوث رہے۔ جبکہ ان کا تعلق میجر جنرل ظہیر اسلام سے بھی بتایا جاتا ہے۔
4 جنوری 2012ء کو اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین نیب جاوید قاضی نے بریگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی کو خط لکھ کر ان کے خلاف عائد الزامات پر ان سے وضاحت مانگی تھی۔
انہوں نے لکھا تھا کہ مجاز اتھارٹی کو آپ کیخلاف سپریم کورٹ آف پاکستان، وزیراعظم سیکرٹریٹ، وزارت قانون واںصاف اور پارلیمانی امور سمیت مختلف ذرائع سے لاتعداد شکایات موصول ہوئی ہیں، ان میں آپ پر شدید قسم کے الزامات عائد کئے گئے ہیں جن کی وضاحت بہت ضروری ہے۔
مصدق عباسی سے 7 روز میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان الزامات کی روشنی میں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کیوں نہ کی جائے۔
ان کے خلاف تشدد کے الزامات اس وقت کے صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کی گئی ایک اور شکایت کے میں سامنے آئے جس میں مصدق عباسی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس شکایت میں شکایت کنندہ نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کا ذکر کیا گیا تھا جس میں نیب حکام کو عباسی کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس کیس میں مبینہ طور پر عباسی کی جانب سے 80 لاکھ روپے کی رشوت طلب کی گئی تھی اور اس کے بدلے میں کیس 5 سال تک زیر التوا رکھا گیا تھا۔
خیال رہے کہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے مستعفی ہونے کے بعد مصدق عباسی کو 26 جنوری 2022 کو وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے احتساب اور داخلہ مقرر کیا گیا ہے۔