ترجمانوں کی فوج کی موجودگی میں حکومت بیانیے کی جنگ کیوں ہار رہی ہے؟

08:07 PM, 27 Jan, 2022

فہد حسین
PTI کو بہت سی چیزوں کے لئے معاف کیا جا سکتا ہے جو اس نے کی ہیں یا نہیں کیں لیکن ایک چیز ہے جس پر یہ پارٹی خود بھی حیران ہوگی کہ یہ یہاں کیسے فیل ہو گئی۔ یہ ناکامی اس ہفتے Transparency International رپورٹ کی صورت میں سامنے آئی جس نے اس کے بیانیے کو توپ میں رکھ کے اڑا دیا ہے۔ عالمی طور پر ہونے والے اس سالانہ سروے میں کئی ملکوں میں عوام میں کرپشن کے تاثر کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور اس کا ایک تفصیلی طریقہ کار بھی دیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر یہ درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ماضی میں PTI اس سروے کو PMLN (اور دیگر مخالفین) کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے۔ لیکن حکومت یہ دیکھ کر حیران اور خوفزدہ رہ گئی ہے کہ اس کے دورِ اقتدار میں پاکستان نے اس سروے میں دس سال میں بدترین پوزیشن حاصل کی ہے۔

پچھلے چند روز میں اس سروے کے مختلف پہلوؤں پر بہت تفصیل میں بات ہوئی ہے۔ لیکن ایک پہلو ہے جس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اور وہ ہے PTI کے اپنے بارے میں تاثر کو خوش آئند رکھنے میں ناکامی۔ اس سے اگر تکلیف ہوتی ہے، تو ہونی بھی چاہیے۔ ترجمانوں اور میڈیا مینیجرز کی پوری فوج کے ہوتے ہوئے اور مسلسل ترجمانی پر توجہ دیتے ہوئے، PTI کو تو بدترین صورتحال کو بھی اپنے حق میں موڑنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آنی چاہیے تھیں۔ حیرت انگیز طور پر، اس نے بالکل اس کا الٹ کیا ہے۔

ریڈ زون میں اس ہفتے ترجمان دھیرے دھیرے سامنے آتی اس تباہ کن صورتحال کو برتانے کی کوششوں میں بھاگے پھر رہے تھے۔ یہ بدترین صورتحال میں مسائل کا بہترین طوفان تھا۔ سیاسی اور معاشی طور پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے دوران اس تین مونہی مصیبت نے حکومت کے بادبانوں کو بالکل بے ہوا کر دیا ہے۔

تین مونہی مصیبت: پہلے تو وزیر اعظم عمران خان نے ٹی وی پر براہِ راست ایک دھمکی دے ڈالی جب کہ انہیں صرف اپنی حکومت کی کارکردگی کو سامنے لا رہے ہونا چاہیے تھا، اور بحث کو ان کے میڈیا مینیجر جس جانب لے جانا چاہ رہے تھے، اس سے بالکل الٹی سمت میں لے گئے۔ دوسری مصیبت: ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے سروے نے PTI کے بڑے محنت سے بنائے ہوئے بیانیے میں ایک بڑا سا سوراخ کر دیا۔ اور تیسری – گویا دوسری مصیبت کو یقینی بنانے کے لئے – حکومت کے احتسابی لشکر کے سرخیل بیرسٹر شہزاد اکبر بڑے ہی بے آبرو ہو کر نکالے گئے۔ بارش ہوتی ہے تو چھاجوں چھاج برستی ہے۔ موسلا دھار برستی ہے۔ لیکن پھر بھی، اچھا تاثر بنانے والی چھتری بادل کے یوں کھل کر برسنے کی صورت میں بھی آسرا دے دیتی ہے۔ موجودہ ہفتے نے PTI کو یاد دہانی کروائی ہے – اگر کسی یاد دہانی کی ضرورت تھی – کہ روز مرہ کے مباحثوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں اس کی توجہ بڑے منظرنامے سے ہٹا دی۔ اگر وہ تھوڑا فاصلے سے صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہوتے تو حکومت کے میڈیا مینیجر اس بحران میں ایک مثبت پہلو تلاش کر سکتے تھے۔ اور یہ کوئی راتوں رات پیدا ہونے والا مثبت پہلو نہیں تھا۔ یہ مسلسل موجود ہے، لیکن اس کی طرف توجہ نہیں۔

اور اس کا نام ہے: احساس۔

لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ احساس کو تو ہر وقت وزیر اعظم اور ان کے ساتھی اچھالتے رہتے ہیں۔ لیکن کسی چیز کا ذکر کرنے اور اسے اپنی کارکردگی کا پوسٹر بنا کر پیش کرنے میں ایک بنیادی فرق ہے۔ اگر کوئی ایک سبق اس حکومت کو اس عرصے میں سیکھنے کی ضرورت تھی تو وہ یہ تھا کہ اپوزیشن کو گرانے کے چکر میں حکومت خود کو بنانے کے عمل کو فراموش ہی کر بیٹھی۔ اس ہفتے پیش آنے والے واقعات نے بڑے ہی ظالم انداز میں اس امر کی تصدیق کی ہے۔

کیسے؟ عمران خان کی سیاست کے تین ستون ہیں: (1) کرپشن کے خلاف جہاد، (2) طاقتوروں کا احتساب، اور (3) عوامی فلاحی ریاست۔ پہلے دو کے لئے ریاست کے مظبوط بازوؤں کی ضرورت ہے اور تیسرے کے لئے اس کا نرم دل۔ کاغذوں میں یہ ایجنڈا بڑا خوش کن ہے۔ یہ ایجنڈا اپنے آپ میں اتنا وسیع ہے کہ کسی بھی حکومت کے پانچ سال کا عرصہ تو اسی کو یقینی بنانے میں لگ جائے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اور ابتدائی دور میں گورننس کے معاملے میں جھٹکے کھا کر، PTI اپنے ہی کنٹینر والے بیانیے کے ہیجان میں الجھ کر رہ گئی اور گیند سے نظریں ہٹا لیں۔ وہ گیندیں جو بڑے آرام سے بیٹ سے مڈل کی جا سکتی تھیں، بیٹ اور پیڈ کے درمیان گیپ میں سے نکلنے لگیں۔

حکومتی جماعت کی سیاست جن تین ستونوں پر کھڑی ہے ان میں سے پہلے دو پر اتنا شور مچایا گیا کہ تیسرا اس شور میں کہیں گم ہو گیا۔ حکومت نے اطلاعات و ابلاغیات کی تمام تر مشینری کو محض اپوزیشن پر نت نئے الزامات کے ذریعے اس کو دبانے پر لگا دیا اور کئی بار اپنے الزامات کو وہ ثبوت بھی قرار دیتے رہے لیکن آہستہ آہستہ حکومت اپنے ہی لگائے گئے الزامات میں تضادات کے بوجھ تلے دبنے لگی۔ اس حکمتِ عملی سے ملنے والے فوائد بتدریج کم ہونا ہی تھے۔ اور جب وہ کم ہوئے تو جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، حکومت لڑکھڑاتی نظر آتی ہے۔

یہ غیر ضروری تھا۔ جس وقت PTI کے میڈیا مینیجر زہر افشانی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں تھے – اور ساتھ ہی بار بار کی تبدیلیوں سے بھی نبرد آزما تھے – کچھ لوگ خاموشی سے کام کر رہے تھے، ایک ایک اینٹ کر کے PTI کی سیاست کے تیسرے ستون کو کھڑا کرنے میں: ایک ایسا فلاحی پروگرام جو اتنا وسیع اور بہتر انداز میں چلایا جا رہا کہ وہ PTI کی گورننس کا چہرہ بن جائے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے زیرِ انتظام چلنے والا احساس پروگرام اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ملک کی تقریباً 30 فیصد آبادی کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس کے بارے میں جانتے تو ہیں لیکن جو کچھ اس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے وہ بہت کم جانتے ہیں۔ حکومت نے احساس کے لئے رقم فراہم کی ہے، اس کو اجاگر بھی کیا ہے لیکن یہ اس کی تفصیل عوام کو بتانے میں ناکام رہی ہے۔ اگر PTI کی ابلاغی حکمٹ، عملی کی کوئی ایک بڑی ناکامی ہے، تو وہ یہ ہے۔

احساس پروگرام کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ سماجی تحفظ کے 20 مختلف شعبوں میں کام کر رہا ہے۔ ان تمام کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑا پروگرام ہے جو کہ ناصرف موجود ہے بلکہ اس حکومت کے دیگر کاموں کے برعکس نتائج بھی فراہم کر رہا ہے۔ حال ہی میں احساس نے ملک بھر میں 2 کروڑ 40 لاکھ گھرانوں کا ڈیجیٹل سروے مکمل کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا معرکہ ہے اور اس کے ذریعے حکومت نے اتنا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے جو کہ مستقبل میں پالیسی سازی میں استعمال کیا جا سکے گا۔ یہ ان گھرانوں کے آبادیاتی، معاشی و سماجی حالات، تعلیم، صحت، روزگار، معذوری، بجلی و گیس کے استعمال، اثاثہ جات اور دیگر کئی حوالوں سے معلومات اکٹھی کر چکا ہے۔

حکومت کی بدقسمتی کہ یہ انتہائی متاثر کن کام اس کی ابلاغی پالیسی کے ایک کونے کھدرے میں پڑا ہے۔ درجنوں وزرا، مشیران، معاونینِ خصوصی اور ترجمانوں میں سے کوئی بھی سماجی تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے اتنے بڑے کارنامے کو حکومت کی ایک کامیابی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ PTI کے دیگر تمام پروگرامز کے مقابلے میں احساس پروگرام پر جتنا پیسہ، محنت اور کام لگا ہے، وہ کہیں زیادہ ہے۔ لیکن یہ حکومت کی میڈیا حکمتِ عملی میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کی جگہ سیاسی مخالفین کو برا بھلا کہنا اس کے ترجمانوں کی اولین ذمہ داری ہے۔

اور یہی سب سے افسوسناک بات ہے۔ ایک پارٹی جو تاثر مینیج کرنے کے حوالے سے مسلسل جٹی ہوئی ہے وہ اس پروگرام کا تاثر بنانے میں ہی ناکام ہے جو واقعتاً نتائج دے رہا ہے۔ اس تمام عرصے میں حکومت کرپشن کے خلاف اپنی کاوشوں کے حوالے سے ایک بیانیہ بنانے میں مصروف رہی جب کہ جس چیز پر بیانیہ بنایا جا رہا تھا، وہ ہو نہیں رہی۔

اگر آج PTI تاثر بنانے کی جنگ میں شکست سے دوچار ہے تو اس کی ذمہ دار یہ خود ہے۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔
مزیدخبریں