ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں الیکشن کمیشن اراکین کودھمکانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ فواد چوہدری کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص راجا کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
اس موقع پر بابر اعوان، فیصل چوہدری، حماد اظہر، شیریں مزاری اور زلفی بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
دوران سماعت پولیس اور پراسیکیوٹر نے ان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی وائس میچنگ ہوگئی ہے۔ فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے جس کیلئے مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔ فواد چوہدری آئینی ادارے کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ بیان سے الیکشن کمیشن کے ورکرز کی جان کو خطرہ پیدا کیاجارہا ہے۔ فواد چوہدری کیس کی مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ ضروری ہے۔
پراسیکیوشن کی جانب سےشہبازگِل کیس کاحوالہ بھی دیا گیا۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ رات 12بجے دو روز کا ریمانڈ ملا تب تک ایک دن ختم ہو گیا تھا۔ عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے اب مزید ریمانڈ دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اقرار بھی کیا ہے۔ تقریر پر تو کوئی اعتراض اٹھا نہیں سکتا۔ملزم نے بیان مانا ہے۔ فواد چوہدری نےحکومت کے خلاف الزامات لگائے۔الیکشن کمیشن کو حکومت کا منشی کہا۔ فواد چوہدری نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے ملازمین کے گھروں تک جائیں گے، الیکشن کمیشن کا کردار اگلے چند ماہ بہت اہم ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام کرپشن ختم کرنا ہے لیکن فواد چوہدری پریشر بڑھارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو دیوار کے ساتھ لگایاجارہا ہے۔ فواد چوہدری سینیر سیاستدان ہیں لیکن قانون سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔فواد چوہدری کے گھر کی تلاشی لینا ضروری ہے۔ فواد چوہدری کے گھر سے لیپ ٹاپ اور موبائل ان کی موجودگی میں لینا ضروری ہے۔ فواد چوہدری کے بیان میں دیگر افراد بھی شامل ہیں۔
فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے اس پر کہا کہ میں بھی فواد چوہدری کے بیان میں شامل ہوں۔ جس کے بعد بابراعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے درمیان تکرار ہوئی۔بابر اعوان نے کہا کہ ججوں کے گھروں تک جانے کا بیان دیاگیا۔ہم نے پرچہ نہیں کروایا تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کا بیان کسی ایک بندے کا نہیں۔ ایک گروپ کا بیان ہے۔ الیکشن کمیشن کے ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیداران کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ ڈسچارج کی استدعا گزشتہ پیشی پر ڈیوٹی میجسٹریٹ نے مسترد کردی تھی۔ عدالت کے سامنے تمام شہری برابر ہیں۔
وکیل بابراعوان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کوئی کلبھوشن یا دہشتگرد نہیں ہے۔کلبھوشن کے چہرے پر فواد چوہدری کی طرح چادر نہیں ڈالی گئی تھی۔ سیکٹری الیکشن کمیشن سرکار کے نوکروں کا بھی نوکر ہے۔ کیس کا مدعی ایک سرکاری ملازم ہے۔ ٹیکس عوام دیتی ہے، موج سرکاری افسران لگاتے ہیں۔ پبلک سرونٹ کامطلب عوام کانوکر ہے۔
فواد چوہدری کے وکیل نے مزید کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن تو یونین کونسل بھی نہیں ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اپنے لیے کوئی وائسرائے آف انڈیا قسم کا ٹائٹل رکھ لے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن ریاست نہیں ہے۔ مجھے اپنے منشی پر فخرہے، میرے منشی کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت ہے۔ معلوم نہیں منشی سےپراسیکیوشن کو اتنی چڑ کیوں ہے۔ الیکشن کمیشن کوئی وفاقی حکومت نہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی ہے۔
انہوں نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہیں۔ فوجداری کارروائی کرنے والا سیکٹری الیکشن کمیشن کیا شفاف انتخابات کروائےگا؟پاکستان میں بڑی جیل بناکرسب جو قیدیوں میں شمار کرلیں۔ الیکشن کمیشن ایک پارٹی کی ترجمانی کر رہا ہے۔پراسیکیوشن کہتی ہے مزید ملزمان کو ڈھونڈنا ہے۔پولیس جس کو پکڑتی ہےکہتی ہے لاہور میں بیٹھے شخص کا نام لےلو۔ تحریک انصاف کے رہنما شیر کے بچے ہیں۔ لاہور میں بیٹھنے والے کانام نہیں لیتے۔سارے ثبوت اور لیب لاہور میں ہیں۔جب لاہور ہائیکورٹ ملزم کا پوچھ رہی تھی تو اسلام آباد لے آئے۔ پراسیکیوشن نہیں بتا رہی کہ یہ فواد چوہدری سےچاہتےکیاہیں۔ فواد چوہدری نے آگ لگانےکا نہیں کہا۔
کمرہ عدالت میں روسٹرم پر بیان دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان پاکستان کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور ہم حق سچ بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں اور ضروری نہیں میری اپنی رائےہو۔میں نے اپنی جماعت کی ترجمانی کرنی ہے۔ جو میں نے بیان دیا وہ میری جماعت کا مؤقف ہے۔
فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اسلام آباد پولیس نے نہیں۔ لاہور پولیس نے گرفتار کیا۔ میرا موبائل فون پولیس کے پاس ہے لہٰذامیری سم بند کی جائے۔
وکیل بابراعوان نے عدالت سے فواد چوہدری کے مقدمے کو ڈسچارج کرنے کی استدعا کی۔
عدالت نے دونوں اطراف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جو ایک گھنٹے بعد سنایا گیا۔
عدالت نے پولیس اور وکیل الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
عدالتی حکم کے بعد پی ٹی آئی نے فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ بعد ازاں فواد چوہدری کی جانب سے اُن کے بھائی فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے درخواست ضمانت بعد از گرفتاری دائر کر دی۔