https://www.youtube.com/watch?v=JPLD7Fia3Ns&feature=youtu.be
ان کا کہنا تھا کہ عرفان صدیقی کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی، اور انہوں نے اپنا گھر کرائے پر دے رکھا تھا، پولیس کے اقدام سے حکومت بدنام ہو گی۔
صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ ’ عرفان صدیقی سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن انھیں قانون کرایہ داری کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر کے ہتھکڑی لگانا اور جیل بھیجنا قابل مذمت ہے۔‘
یاد رہے کہ عرفان صدیقی کی گرفتاری جمعے کے رات عمل میں آئی اور اسلام آباد پولیس کے مطابق وہ مبینہ طور پر کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
انھیں رات گئے اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
تھانہ رمنا میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر جی 10 میں معمول کے گشت کے دوران ایک شخص سے ان کا نام، پتہ دریافت کیا۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ کرک کے رہائشی ہیں اور انھیں نے عرفان صدیقی کا گھر کرائے پر حاصل کیا ہے۔
پولیس کے مطابق کرایہ دار سے کوائف مانگے لیکن وہ مبینہ طور پر یہ کوائف دینے میں ناکام رہے جس کے بعد عرفان صدیقی اور کرایہ دار جاوید اقبال دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
عرفان صدیقی کو گرفتاری کے بعد مقامی تھانے میں رکھا گیا اور ہفتے کی صبح انھیں جوڈیشل مجسٹریٹ مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ان کے وکیل نے استدعا کی کہ یہ جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ ہے اس لیے انھیں فی الفور رہا کیا جائے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے اور عرفان صدیقی نے کرایہ دار کے کوائف تھانے جمع نہ کروا کر تعزیرات پاکستان کے سیکشن 188 کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
تاہم عرفان صدیقی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالت نے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔