امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق منتظمین کا کہنا ہے کہ سنگِ بنیاد کی تقریب 5 اگست کو رکھی گئی ہے جو علم نجوم کے لحاظ سے ہندوؤں کے لیے بہت اچھا دن ہے۔ تاہم اسی روز بھارتی پارلیمنٹ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے یکطرفہ فیصلے کو بھی ایک برس مکمل ہوجائے گا۔
بی جے پی سے الحاق شدہ ہندو قوم پرست جماعت وشوا ہندو پریشد یا ورلڈ ہندو آرگنائزیشن کے مطابق چونکہ بھارت میں کرونا وائرس تاحال تیزی سے پھیل رہا ہے اور کیسز کے لحاظ سے عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر ہے لہذا تقریب براہِ راست سرکاری نشریاتی ادارے پر نشر کی جائے گی اور شرکا کی تعداد کو محدود رکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کیا تھا۔ اہم ترین اور 27 سال سے جاری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس بات کے اطمینان بخش شواہد موجود ہیں کہ بابری مسجد کسی خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔ فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھارتی عدالت عظمٰی میں نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس کو سپریم کورٹ نے 12 دسمبر کو مسترد کردیا تھا۔