ترجمان پی ٹی اے خرم مہران نے کہا کہ ہائیکورٹ نے پب جی پر پابندی ختم کرنے کا نہیں بلکہ پی ٹی اے کو یکم جولائی کی پابندی کے حکم نامے کی تفصیلات جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ یکم جولائی کو پی ٹی اے نے مختلف حلقوں سے ملنے والی شکایات کو دیکھتے ہوئے پب جی گیم کو عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ضمن میں جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ پی ٹی اے کو اس گیم کے عادی بنانے، وقت کے ضیاع اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر سنگین منفی اثرات کے حوالے سے لاتعداد شکایات موصول ہوئی تھیں۔
بعدازاں پب جی گیم پر پابندی کے حوالے سے پی ٹی اے نے 23 جولائی کو تفصیلی سماعت کے بعد پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کیا تھا۔
دوسری جانب یہ پاکستان میں پب جی کنٹرول کرنے والی کمپنی نے پی ٹی اے کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت تھی جس کا 15 جولائی کو محفوظ شدہ فیصلہ 24 جولائی کو جاری کیا گیا تھا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ پی ٹی اے نے پب جی پر پابندی لگاتے ہوئے متعلقہ قانون کی پیروی نہیں کی۔
اس طرح عدالت نے پی ٹی اے کو پب جی کے خلاف شکایت پر قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی اجازت دیتے ہوئے گیم پر پابندی کا حکم کالعدم قرار دے دیا تھا۔
فیصلے میں جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پب جی پر صرف عوام کے مختلف طبقات کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات پر عارضی پابندی عائد کی گئی اور پی ٹی اے کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچھ افراد کی خودکشی کے حوالے سے شکایات پر سی سی پی او لاہور کی جانب سے خط لکھا گیا تھا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے اس سلسلے میں پہلے ہی عوامی سماعت کرچکا ہے جس میں درخواست گزار سمیت تمام فریقین کو سنوائی کا موقع دیا گیا، چنانچہ پی ٹی اے موصول ہونے والی شکایات پر پیکا کی دفعہ 37 یا دیگر قابل اطلاق قانون کے تحت 7 روز میں ہدایت یا حکم جاری کرے گا۔
یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ گذشتہ ماہ کے دوران پب جی کھیلنے کے عادی 3 نوجوانوں کے خودکشی کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
آن لائن گیم پب جی پر پابندی کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ ساتھ کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی جانب سے بھی اس پر آواز اٹھائی گئی تھی۔
پی ٹی اے حکام کے مطابق پنجاب پولیس نے پب جی گیم کھیلنے والے کم عمر بچوں کی خودکشی کی رپورٹ دی جبکہ والدین اور شہریوں کی جانب سے 109 شکایات اور گیم بند کرنے کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔
حکام نے پب جی انتظامیہ سے پوچھا تھا کہ 16سال سے عمر بچوں کو گیم سے دور رکھنے اور تباہ کن اور مجرمانہ مواد روکنے کےلیے کیا اقدامات اٹھائے۔ حکام سے سوال کیا تھا کہ کیا پب جی کھیلنے والے بچوں کے لیے کوئی ٹائم لائن مقرر کی گئی؟ تاہم پب جی انتظامیہ کی جانب سے پی ٹی اے کے سوالات کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور پی ٹی اے نے والدین اور عوامی شکایات پر پیکا ایکٹ کےتحت پابندی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔