انگریزی زبان میں ان کی بات کو contradiction in terms کہیں گے۔ اردو میں "متضاد خیالی" کہہ لیں۔ بات تو سچ تھی، مگر بات تھی رسوائی کی۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، جنرل حمید گل کے نام نامی سے کون واقف نہ ہے، وه سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کہا کرتے تھے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو مطلق اكثريت (absolute majority) سے جیتنے سے روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جی آئی) بنوایا۔
سپریم کورٹ میں اصغر خان كيس کی سماعت کے دوران اس کی تصدیق ہوئی۔ مرحوم نے اپنی زندگی کا آخری انٹرویو ڈاکٹر شاہد مسعود كو ديا۔ اس کا ایک کلپ آپ باآسانی یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ اُن کے انٹرویو کے وقت عمران خان اقتدار سے کوسوں دور تھے۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ عمران خان کو اقتدار میں لایا جائے گا۔ عمران خان فيل ہو جائیں گے، وہ discredit ہو جائیں گے اور پھر یہ نظام لپیٹ دیا جائے گا۔ یہ اُن کی ژرف نگاہی تھی یا انہیں منصوبے کی بھنک پڑ چکی تھی، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کہیں ایسا تو، نہیں کہ ملک و قوم اُسی طرف جارہے ہوں۔
عمران خان صاحب نے خود یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ سسٹم نہیں چل سکتا، یعنی اس میں وہ ڈیلیور نہیں کر سکتے۔ "چاچا رحمتے" نے "مصطفی ایمپيكس" (PLD 2016 SC 808) کا فیصلہ کرتے ہوئے کابینہ کی ایسی تشریح کر ڈالی، جس کا مقصد نواز شریف کو من مانی کرنے اور بادشاہت قائم کرنے سے روكنا تھا۔ ہر شخص یہ جانتا تھا کہ نواز شریف کو نہ تو فائل ورک سے کوئی دلچپسی ہے اور نہ وہ کابینہ کے اجلاس بلانے اور وسیع تر مشاورت کے قائل ہیں۔ کسی معاملے میں کسی سیانے سے مشوره کرنا ہوتا تو وہ وزیر صاحب يا کسی صحافی کو شرف ملاقات بخش دیتے۔ بظاہر تو متذکرہ فیصلہ نواز شریف کو پیش نظر رکھ کر كيا گیا، لیکن اس کے مضمرات و نقصانات عمران خان صاحب کی حکومت کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
کابینہ کے مسلسل اجلاس اور اس میں "غیروں" کی مسلسل شرکت۔ کوئی شخص کھل کر جلسہ عام میں صحیح مشوره دینے سے گھبراتا بھی ہے اور کنی بھی کتراتا ہے۔ نتیجہ خراب گورننس (poor governance)۔
حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان کی سوچ واضح اور دو ٹوک تھی کہ کابینہ مختصر ہونی چاہیے، زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ افراد پر مشتمل ہونی چاہیے۔ جہازی سائز کابینہ کے وه نقصانات بتایا کرتے تھے۔ حکومت میں آنے کے بعد وہ وقفے وقفے سے کابینہ میں تبدیلیاں بھی لاتے رہے اور اس میں توسیع بھی کرتے رہے۔ وزیروں کے علاوہ آئین کے تحت پانچ مشیر Advisors رکھے جا سکتے ہیں۔ گویا، آئین کی منشا یہ ہے کہ کابينہ منتخب افراد پر مشتمل ہونی چاہیے، وه اسمبلی کو بھی جوابده ہوں اور عوام میں بھی جا کر کابینہ کے فیصلوں کی اجتماعی ذمہ داری Collective responsibility کے اصول کے تحت دفاع بھی کریں۔ عام اور غلط تصور کے تحت مشیر کابینہ میں بیٹھ سکتے ہیں۔ کیبنٹ کی تشریح آئین میں واضح ہے۔ وفاقی وزیر اور وزیر مملکت آئین سے وفاداری و حکومتی رازوں کو اخفا میں رکھنے کا حلف لیتے ہیں۔ مشیران اور معاونین خصوصی ایسا نہیں کرتے۔ وجہ اور فرق صاف ظاہر ہے۔ کوئی نہ دیکھنا چاہے تو! تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں۔
نہ جانے عمران خان صاحب کو کس نے کس طرح یہ باور کروا دیا کہ ان کے پاس تو حکومت چلانے کے لیے کوئی ٹیم ہی نہیں۔ شاید ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت اس بات کو نظر انداز کردیا گیا اور اگر پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے ایک امیداوار کی روایت سچ ہے تو جزل پاشا صاحب نے ٹکٹوں کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خاص اہلیت کے امیدواروں پر نظر انتخاب ٹھہر جانا جن کا بطور وزیر انتخاب مشکل ہو جائے، کسی معمے سے کم نہیں۔ بہر طور، عمران خان کو مجبور کردیا گیا کہ وہ مشیروں اور وزیروں کے علاوه "معاونین خصوصی" Special Assistants بھی رکھیں۔ دلیل یہ دی گئی کہ آئین جہاں خاموش ہے، وہاں "انی پا دیو"۔
آئے روز اخبارات کے ذریعے یا ٹیلی ویژن کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ آج ایک اور نیا معاون خصوصی ركھ لیا گیا ہے۔ تعداد بڑھتی گئی اور بڑھتے بڑھتے 14 ہوگئی۔ یہ پانچ مشیران Advisors کے علاوه ہیں۔ کرونا نے لوگوں کا ناک میں دم کیا اور وه گھروں میں دبک کر بیٹھنے پر مجبور ہوئے تو عمران خان صاحب نے عوام کو دلاسا دینے اور ان سے جڑے رہنے کے لیے بھی لمبی لمبی پریس کانفرسیں کرنے لگے۔ اُس وقت عوام پر یہ بات کھلی کہ عمران خان صاحب تو مشیروں و معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج میں گھر چکے ہیں۔
شیخ رشید صاحب نے بھی پولے منہ سے کہہ دیا کہ خان صاحب انگریزی زبان والوں کی زیاده سنتے ہیں۔ یہ پریشر ککر اُس وقت پھٹا جب فواد چوہدری صاحب نے سہیل وڑائچ صاحب کو وائس آف امریکہ کے لیے انٹرویو دیا اور معاونین خصوصی پر انگشت نمائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ تو غیر منتخب ہیں اور ان کی پالیسیوں کا جواب ہمیں عوام کو دینا پڑتا ہے۔ بات کو گول مول کرتے ہوئے، یہ اضافہ بھی فرما دیا کہ خان صاحب کی نیت اور ژرف نگاہی Vision کے تو كيا کہنے، مگر ان کے پاس کوئی ٹیم ہی نہیں ہے۔ اس سے بہتر نام نہاد ماہرین/نيكنوکريٹس/معاونین خصوصی کی کارکردگی پر تبصرہ ممكن ہی نہیں۔ صاف لفظوں میں، کہنے کو تو یہ ماہرین ہیں، مگر نہ تو انہیں زمینی حقیقتوں کا پتہ ہے اور نہ ان کے مشورے عوام کے مفاد میں ہیں۔ اس سے بھی قبل وزیر ہوا بازی، غلام سرور صاحب ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں یہ فرما چکے تھے کہ انہیں نہیں پتہ ہوتا کہ کابینہ میں ان کے دائیں بائیں کون لوگ بیٹھے ہیں۔
کابینہ اور اجنبی افراد کا انبوه ایک ساتھ ! Strange bedfellows! حال ہی میں مشیران کرام اور معاونین خصوصی کی جائیدادوں کو مشتہر کیا گیا ہے، جس سے عوام کو یہ پتہ چلا ہے کہ کتنے مشیر دوہری شہریت کے مالک ہیں۔ کتنوں کے پاس گرین کارڈ ہے اور كن كن كے پاس مستقل رہائش کی سہولت موجود ہے۔ رہے اثاثے تو وہ کروڑوں میں نہیں، اربوں میں ہیں اور پچانوے فیصد بیرون ملک ہیں۔ ٹیکس فائلز بھی کم کم ہیں۔ کیا وہ پاکستان نامی جہاز کے ٹیکنیشنز ہیں یا مینجرز ہیں۔ جن کی اس ملک میں کوئی Stake ہی نہیں۔ یہ انکشاف تو ہوشربا ہے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے پاکستانی اکاؤنٹ میں محض چند ہزار روپے ہیں۔
مشیر اطلاعات اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ، جزل عاصم باجوہ کے اثاثوں کی تفصیل بھی ہوشربا ہے۔ اور اثاثوں کی بیان کرده مالیت بھی مضحکہ خیز ہے۔ اسی دوران صحافی مطيع الله جان کو وفاقی دارالحکومت میں دن دیہاڑے اور کھلے بندوں، پولیس کی وردی میں ملبوس لوگ اغوا کر لیتے ہیں، اور عمران خان صاحب کے قريب ایک صحافی صابر شاکر ٹیلی ویژن پر آکر اعلان کرتے ہیں کہ عمران خان کو یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ مطيع الله کے اغوا میں کوئی سويلين ايجنسی ملوث نہیں ہے۔
حامد میر صاحب انکشاف فرماتے ہیں کہ ان کے پروگرام کے تعارفی کلمات اور اختتامی انٹرویو کو طاقتور لوگوں کے کہنے پر ایڈٹ کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل کبھی چینی غائب ہو جاتی ہے اور کبھی پیٹرول، دنیا بھر میں قیمتیں کم ہونے کے باوجود غائب ہو جاتا ہے اور کبھی آٹا غائب ہو جاتا ہے اور گندم کی کٹائی کے دنوں میں ہی گندم اور آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت پر کوئی گرفت ہے یا وہ عملی طور پر لال قلعے کے بہادر شاہ ظفر بنا دیے گئے ہیں اور ملک میں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے نظام چلایا جا رہا ہے یا اس کا دھڑن تختہ کیا جا رہا ہے؟
اس سے پہلے ایک لطیفہ سن لیجیے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم تھے اور آئینی خانہ پوری کے لیے جناب فضل الہی نامی شخص کو صدر بنا دیا گیا۔ انہیں اپنی حیثیت کا بخوبی علم تھا۔ وہ بھٹو سے باقاعده پوچھتے کہ ائیرپورٹ پر وه کسی دوسرے ملک کے سربراہ کا استقبال کر سکتے ہیں یا نہیں۔ سردیوں کے دن تھے اور صدارتی محل کے محافظین زيادہ تر سو گئے ہوئے تھے اور ایک آدھ اونگھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کی آنکھ کھلی تو اُسے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی شخص کمبل میں لپیٹا ہوا ہے۔ ایوان صدر کی دیوار پر برش سے کچھ لکھ رہا ہے۔ قريب گیا تو اُس نے یہ فقرہ لکھا ہوا پڑھا کہ "صدر فضل الہی کو رہا کرو"۔ محافظ سکتے میں آگیا، اُس نے کمبل پوش کو دبوچ لیا۔ منہ سے پرده ہٹایا تو اس کی سٹی گم ہو گئی۔ لکھنے والا خفیہ قلم کار تو بنفس نفيس صدر مملکت جناب فضل الہی صاحب خود تھے۔
صدر ہو یا وزیر اعظم، سیکورٹی کے نام پر اس کے گرد ایسا حصار کھینچ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قفس میں سمجھتا ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ جہاں وزیروں کی رسائی وزیراعظم تک نہ ہو اور وه دل کی بات تنہائی میں وزیراعظم سے نہ کر سکيں اور معاونین خصوصی کا جمگھٹا لگا رہے، وہاں وزیراعظم کیا پڑھے گا، کس پالیسی پر غور کرے گا اور اسے گرد و پیش کی کیا خبر ہو گی بالخصوص، جب وہ یہ بھی فرمائے کہ وزیر، مشیر اخبارات پڑھنا چھوڑ دیں۔
جب نامور صحافیوں کو نوکریوں سے نکال دیا جائے، ان کا اغوا دن دیہاڑے ہوں۔ لوگوں کو بھوکا مرنے پر مجبور کر دیا جائے، لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ ہو اور عوام کی زندگی اجیرن کردی جائے تو تحریک انصاف کی حامل جماعت و حکومت باقی جو کچھ بھی ہو۔ انصاف کا خانہ/کالم اس میں خالی ہوگا۔ اب لوٹتے ہیں سازشی نظریہ کی طرف، آدمی ایک بار اقتدار کی آرزو دل میں پال لے تو اس کے حصول کے لیے وه کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اپنی سوچوں، اپنے نظریات سے تائب ہو سکتا ہے۔ یوٹرنز کو سیاسی بصیرت اور کمال فن قرار دے سکتا ہے۔ بڑھتی عمر اور سیاست کے خارزار میں بے مقصد آبلہ پائی نے عمران خان کو بھی compromise پر مجبور کردیا۔
دوسری پارٹیوں کے مال کو ڈرائی کلین کر کے اپنی دکان سجا بیٹھے۔ ایک پیج پر آنے کے لیے وہ نجانے کيا کیا گنوا بیٹھے۔ سب کچھ لٹانے کے بعد اب وہ ہوش میں آنے لگے ہیں تو خود انہیں يقين ہو چلا ہے کہ وہ اپنے مشن سے ہٹ چکے ہیں اور عملی طور پر ایک ناکام حکمران کی تصویر بن کر اقتدار کی غلام گردشوں میں کہیں گم ہو گئے ہیں۔
غلام سرور صاحب کا بیان کہ ان کے دائیں بائیں اجنبی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، فواد چوہدری کا بیان کہ غیر منتخب لوگ فیصلے کررہے ہیں، آٹے چینی کا بحران، پیڑول کی عدم دستیابی، روز افزوں مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کی بے لگام بگٹٹ دوڑ، عوامی بے چینی، احتساب پر اعلی عدلیہ کی ناوک زنی، پریس کی یک بیک زہر ناکی بدلے ہوئے موسموں کی خبر دے رہے ہیں اور عمران خان آنے والے وقت کی چاپ سن رہے ہیں۔
انہوں نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا کہ کرسی تو آنی جانی ہے۔ یہاں کون سدا بیٹھتا ہے۔ یہ فقرہ ان کی سوچ کو آشکار کررہا ہے۔ آپ اسے شکست خورده زہنیت defeatist thinking کہہ لیجیے۔ لگتا ہے، عمران خان صاحب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ دوست نما دشمنوں میں گھر چکے ہیں۔ مشیران و خصوصی معاونین انہیں وہی مشورے دیتے ہیں، جو اصل میں کسی اور کی منشا ہوتے ہیں اور مقصد اس کا یہ ہوتا ہے کہ وه عوام کی نظروں میں اور خود اپنی نظروں میں گرتے جائیں۔ اس mindset کے ساتھ عمران خان یہ طے کر بیٹھے کہ ان معاونین خصوصی اور مشیران کو کیوں نہ ننگا اور بے نقاب کیا جائے جو "فرمائش" تو کسی اور کی ہیں اور بھگت جناب وزیراعظم رہے ہیں۔
شیکسپیئر کی زبان میں There is a method in the madness۔ مشیران و معاونین کے ساتھ جو کیا گیا ہے، وه سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں۔غلام سرور اور فواد چوہدری کے بیانات کو اسی روشنی میں پڑھیے۔ عمران صاحب، اگر جزل حمید گل کی پیش گوئی یا مفروضہ منصوبہ بندی کو ناکام کرنا چاہتے ہیں تو master stroke لگاتے ہوئے سارے مشیران و معاونین خصوصی کو بیک جنبش قلم و بیک بینی و دوگوش چلتا کریں۔ سازشوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ عوام میں بھی پھر سے مقبول ہونے کی توقع کر سکتے ہیں اور جمہوریت کو بھی پٹڑی سے اترنے سے بچا سکتے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ عمران خان کو کھلے بندوں یہ کہنا نہ پڑ جائے کہ عمران خان کو رہا کرو، جمہوریت بحال کرو۔ ورنہ، مستقبل قریب میں ساری پارٹیاں ایک ہی کنٹینر پر بیٹھے اصل حکمرانوں سے "غیر معقول" مطالبات کررہی ہوں گی۔