ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی محکمہ خارجہ کی پاکستان میں عدالتی نظام کے بارے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں امریکی رپورٹ میں دیے گئے تاثرات غیر معقول اور غیرمصدقہ ہیں، پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور عدالتیں ملک کے آئین و قوانین کے مطابق کام کر رہی ہیں۔
امریکی رپورٹ میں پاکستانی عدلیہ سے متعلق کیا کہا گیا تھا؟
دی نیوز نے رپورٹ کے مندرجات شائع کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ
2021 Investment Climate Statements: Pakistan
میں امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے زیر اثر ہے۔ ماتحت عدلیہ پر ایگزیکٹو برانچ کا اثر اور اس میں اہلیت اور شفافیت کا فقدان ہے۔ جبکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر بھی ہے۔
ماتحت عدالتوں میں کئی غیر حل شدہ مقدمات کا ہجوم موجود ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کی عدالتوں کی اہلیت، شفافیت اور قابل بھروسہ ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نظریاتی لحاظ سے عدالتیں آزاد ہیں لیکن حقیقت مختلف ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا عدالتوں پر نمایاں اثر ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کی شفافیت، اہلیت اور قابلیت پر بھروسہ کرنا شکوک و شبہات سے پُر ہے۔ تاہم، توہین عدالت کی کارروائی کے ڈر کی وجہ سے کاروبار اور عمومی طور پر عوام عدالتی نظام کی کمزوری پر انگلی نہیں اٹھا پاتے۔
رپورٹ کے مطابق، ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی 2020 کی کرپشن کے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 180؍ ممالک کی فہرست میں پاکستان 124ویں نمبر پر ہے اور چونکہ سزائوں پر عملدرآمد اور احستاب کا فقدان ہے لہٰذا کرپشن کے مسائل بدستور موجود ہیں، اور ساتھ ہی میرٹ کی بنیاد پر ترقیاں بھی نہیں دی جاتیں جبکہ تنخواہیں نسبتاً کم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے ضابطہ قانون کے تحت رشوت ایک جرم ہے جس کی سزا مقرر ہے لیکن اس کے باوجود حکومت میں ہر سطح پر رشوت کا چلن موجود ہے۔ اگرچہ اعلیٰ عدالتوں کو اچھی ساکھ کا حامل سمجھا جاتا ہے لیکن نچلی عدالتیں کرپٹ، نا اہل اور امیر، مذہبی، سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ کی شخصیات کے دبائو میں آ جاتی ہیں۔
عدالتی تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے عدالتی نظام پر حکومت کا اثر رسوخ بڑھ جاتا ہے۔
رپورٹ میں نیب کی نا اہلی پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے
رپورٹ کے مطابق، نیب کی فنڈنگ بھی کم ہے اور ادارے میں پیشہ ورانہ قابلیت بھی نہیں، اور پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں ادارے کو سیاسی لحاظ سے متعصب سمجھتی ہیں۔ نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے کاروباری شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی عدالتیں حکومت کیخلاف غیر ملکی ثالثی فیصلوں کو مانتی ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کراتی ہیں، کسی بھی مقامی ادارے کیخلاف جاری ہونے والے عالمی فیصلے کیخلاف بھی مقامی عدالتوں سے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کیخلاف ماورائے عدالت کارروائی کی کوئی مثال موجود نہیں۔
مسائل اور تنازعات طے کرنے کیلئے پاکستان میں متبادل نظام (آلٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولیوشن میکنزم) موجود ہے جس کے ذریعے دو فریقین کے درمیان مسائل حل کیے جاتے ہیں، پاکستان کے آربیٹریشن ایکٹ (ثالثی کا قانون) تجارتی تنازعات میں ثالثی کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے لیکن عموماً کیسز حل ہونے میں برسوں کا وقت لگ جاتا ہے۔
ایسے خطرات کو دور کرنے کیلئے غیر ملکی سرمایہ کار کنٹریکٹ کی شقوں کا سہارا لیتے ہیں جس میں بین الاقوامی ثالثی کا ذکر موجود ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں خصوصی ٹریبونلز کا بھی ذکر موجود ہے جس کا مطلب آلٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولیوشن ہے۔
اسپیشل ٹریبونلز ٹیکس، بینکنگ، لیبر اور آئی پی آر کے تنازعات طے کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔ تاہم، غیر ملکی سرمایہ کار اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ شفاف، واضح اور بروقت انداز سے سرمایہ کاری کے تنازعات حل نہیں کیے جاتے۔