مذکورہ واقعہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں گزشتہ دنوں پیش آیا جہاں 17 سالہ نیہا پسون کو دادا دادی اور دیگر رشتے داروں کی جانب سے جینز پہننے پر قتل کیا گیا۔
برطانوی میڈیا سے گفتگو کے دوران مقتولہ کی والدہ شکونتلا دیوی نے بتایا کہ لڑکی کی چچا اور دادا سے جینز پہننے کے اوپر بحث ہوئی جس کے بعد اس پر ڈنڈے برسا دیے گئے۔
شکونتلا دیوی کا کہنا تھا کہ واقعے کے روز ان کی بیٹی نے روزہ رکھا ہوا تھا، شام کو اس نے جینز اور ٹاپ پہن کر مذہبی رسومات ادا کیں، دادا دادی نے دیکھا تو انہوں نے اس کے لباس پر اعتراض کیا جس پر نیہا نے جواب دیا کہ جینز پہننے کیلئے بنائی گئی ہے اسی لیے میں پہنوں گی۔
خاتون نے بتایا کہ یہ بحث طویل ہوگئی جس نے شدید جھگڑے کی شکل اختیار کرلی، اس کے بعد نیہا کو اتنا مارا گیا کہ وہ بے ہوش ہوگئی، بعدازاں دادا دادی اور چچا نے رکشہ بلواکر اسے اسپتال لے جانے کا دعویٰ کیا۔
نیہا کی ماں نے انکشاف کیا کہ مجھے وہ ساتھ لے جانے پر آمادہ نہیں ہوئے جس کے باعث مجھے شک ہوا تو میں نے اپنے خاندان والوں کو مطلع کیا۔
شکونتلا دیوی نے مزید بتایا کہ اگلی صبح انہوں نے سنا کہ کسی لڑکی کی لاش دریا کے اوپر پل پر لٹکی ہوئی ہے وہاں پہنچنے پر پتا چلا کہ وہ نیہا کی لاش تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے دادا دادی، رکشہ ڈرائیور اور چچا کو تفتیش کیلئے گرفتار کرلیا۔
بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد نئی بلندیوں پر
یوں تو بھارتی معاشرے میں گھریلو تشدد یا عورتوں کے ساتھ مار پیٹ ہونے کا معاملہ ہمیشہ سے ہی ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ تاہم یہ صورت حال کووڈ انیس کی عالمی وباء کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤ ن میں مزید سنگین شکل اختیار کر گئی تھی اور اس عرصے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کی شرح نے پچھلے دس سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔
مارچ تا ستمبر2020 کے درمیان نیشنل کمیشن فار ویمن میں گھریلو تشددکی 13,000 شکایات درج ہوئیں۔ اعداد وشمار کے مطابق جب 25 مارچ سے 31 مئی 2020 تک سخت لاک ڈاؤن نافذ تھا، اس دوران 1,477 متاثرہ خواتین نے شکایات درج کروائیں۔ صوبے کے اعتبار سے خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات ریاست اتراکھنڈ میں پیش آئے حالانکہ وہاں کی آبادی دیگر صوبوں کی نسبت کم ہے۔
اس کے بعد ہریانہ ہے، جو پہلے ہی عورتوں کے ساتھ نارواسلوک کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔ وفاقی دارالحکومت نئی دہلی کا نمبر تیسرا ہے۔ یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ متاثرہ خواتین کی 86 فی صد تعداد نے اپنے تحفظ کے لیے کوئی مدد حاصل نہیں کی جبکہ 77 فیصد نے ان پر ہوئے ظلم وستم کا کسی سے کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ تاہم گھریلو تشدد کے واقعات میں یہ غیرمعمولی اضافہ اس بڑے برفانی تودے کی طرح ہے، جس کا ایک چھوٹا سا سرا ہی سمندر کی سطح پر نظر آتا ہے۔ حقیقت میں یہ تعداد لاکھوں میں ہو گی۔