انگزیزی اخبار ڈان کے مطابق پولیس عہدیداروں نے کہا کہ نذیر چوہان ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل سےملاقات کے لیے ان کے دفتر میں موجود تھے اور پولیس نے ان کی لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد گرفتار کرلیا۔
پولیس نے نذیر چوہان کو ریس کورس تھانے منتقل کردیا جہاں تفتیش کے لیے شکایت درج کردی گئی اور بعد ازاں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی سائبر کرائم ونگ کے سیل میں منتقل کردیا جائے گا۔ نذیر چوہان کو پولیس نے کینٹ کچہری میں پیش کردیا جہاں عدالت نے ان کے خلاف درج شکایت کو قابل ضمانت قرار دیا اور کہا کہ ملزم کے خلاف درج دفعات قابل ضمانت ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگر ملزم عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔ نذیر چوہان اگر ضمانتی مچلکے جمع نہیں کراتے ہیں تو انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا جائے اور ملزم کو جیل سے آئندہ سماعت پر 10 اگست کو سیکشن 173 کے تحت رپورٹ کے ساتھ پیش کیا جائے۔ پولیس نے نذیر چوہان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کی استدعا کی تھی۔
خیال رہے کہ وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے رواں برس مئی کے واخر میں اپنے خلاف متنازع بیان دینے پر جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے رکن صوبائی اسمبلی نذیر چوہان کے خلاف مقدمہ درج کرادیا تھا۔
ایف آئی آر میں شہزاد اکبر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ رکن اسمبلی و پی ٹی آئی رکن نذیر چوہان نے نجی چینل ‘بول’ میں ایک پروگرام کے دوران ان کے عقیدے سے متعلق جھوٹ پر مبنی الزام لگایا۔ شہزاد اکبر نے نذیر چوہان کے خلاف ریس کورس میں مقدمہ درج کرتے ہوئے درخواست میں کہا تھا کہ ’میں باعمل مسلمان ہوں اور ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہوں تاہم نذیر چوہان کا متنازع بیان جھوٹ پر مبنی ہے جس کے باعث ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے‘۔
ایف آئی آر کے مطابق مشیر نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’ نذیر چوہان نے میرے مذہبی عقائد کو نقصان پہنچا کر میرے وقار، ملکیت اور جان کو خطرے میں ڈال دیا ہے‘۔ انہوں نے کہا تھا کہ نذیر چوہان نے مذہبی عقائد کو بنیاد پر بنا کر کرپشن کے خلاف میری گراں قدر خدمات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔