ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے بھاری پتھر، لکڑی اور ملبہ آ کر دریائے چترال میں جمع ہوتا ہے جس سے دریا کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چترال سے بونی تک سڑک کی کشادگی اور تعمیر کے دوران متعلقہ ٹھیکیدار نے بھی سڑک کی کٹائی کا ملبہ دریائے چترال میں ڈال دیا۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق دریا میں ملبہ، پتھر یا کسی قسم کی گندگی ڈالنا قانوناً جرم ہے مگر لگتا ہے اس ٹھیکیدار کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے متعلقہ پروجیکٹ ڈائریکٹر، ضلعی انتظامیہ اور حکام بالا کی معنی حیز خاموشی نے اس کو فری ہینڈ دے دیا تھا جس کی وجہ سے دریا میں پانی کی سطح بلند ہوئی۔
نیردیت گول نالے کے قریب بونی کی سڑک ایک کلومیٹر تک مکمل طور پر دریا برد ہو چکی ہے اور اب سڑک کی جگہ دریا کا پانی بہتا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے سینگو میں واپڈا کا ایک پن بجلی گھر بھی تباہ ہوا جس کی وجہ سے سینگور کے دیہات کو بجلی کی فراہمی معطل ہو چکی ہے۔ بونی سڑک پر بنے کئی پل بھی بہہ چکے ہیں جبکہ 9 مکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ پینے کے پانی کی پائپ لائن، آب پاشی کی نہریں اور ندیاں بھی سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔ علاقہ مکین پینے کے پانی سے محروم ہیں۔
دریا کے کنارے جتنے ہوٹل اور مکانات تھے ان کی پہلی منزل پر بنے کمروں میں بھی سیلاب کا پانی داحل ہو گیا جس کے باعث کمروں کر نقصان پہنچا۔ جبکہ دنین کے مقام پر گاڑیوں کی ورکشاپ والی مارکیٹ بھی سیلاب کی وجہ سے زیر آب آ چکی ہے۔
وادی کیلاش میں بھی سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ وہاں بھی سیلاب کا پانی کئی گھروں میں داحل ہو کر نقصان کا باعث بنا ہے۔ مقامی لوگوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی تک این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے یا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے ان سڑکوں کی بحالی اور متاثرہ لوگوں کو ریلیف پہنچانے کے کام پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
چترال کے عوام صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ چترال کو آفت زدہ قرار دے کر ہنگامی بنیادوں پر بحالی کے کاموں کو تیز کیا جائے کیونکہ ضلع اپر چترال کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور چین تک جانے والی سڑک بھی ایک کلومیٹر تک مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور اگر بین الاقوامی سطح پر چترال کے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا تو یہ سڑک بحال کرنے پر کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ضلع اپر چترال کو جانے والا واحد راستہ بونی سڑک سے گزرتا ہے جو اس وقت مکمل طور پر بند ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو وہاں کے لاکھوں لوگوں کے پاس اشیائے خور و نوش، ادویات اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے جس کے باعث لوگ فاقہ کشی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے ضلع اپر چترال کے لاکھوں لوگ آنے جانے میں نیر دیت گول نالے کے ملبے کے اوپر جا کر انتہائی حطرناک پہاڑی پر چڑھتے ہیں اور وہاں سے پیدل جا کر نیچے دوسرے علاقے میں پہنچ کر سڑک تک پہنچتے ہیں جس میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ آگے جا کر بھی سڑک پر کئی پُل سیلاب کی وجہ سے بہہ چکے ہیں اور لوگ دور دراز علاقوں سے پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ پہاڑی پر چڑھنے والوں میں خواتین، بچے اور مریض بھی شامل ہیں۔