تاہم اس حوالے سے قبائلی علاقہ جات، افغانستان اور خطے میں طالبانائزیشن پر گہری نظر رکھنے والے ملک کے معروف صحافی اور اینکر پرسن سلیم صافی نے اس حوالے سے عام مفروضے سے برعکس دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے اس بات سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ عمران خان نہ صرف امریکی آپریشن کے حق میں رہے بلکہ اس کی حمایت کرکے ڈکٹیٹر مشرف سے سیاسی حمایت چاہی جو انکو نہ مل سکی تو انہوں نے یو ٹرن لیا۔
وہ اس سب کا پس منظربیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ماضی کی حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خلاف امریکا، پاکستان اور عرب ممالک نے مل کر افغان مجاہدین اور اُن کی مدد کے لیے آنے والے اسامہ بن لادن جیسے عرب مجاہدین کی ڈٹ کر مدد کی۔ اس عمل میں چین اور ایران بھی مجاہدین کے ساتھ تھے۔ اسرائیل تک سے بھرپور مدد کی گئی۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی یہاں طالبان نہیں بلکہ مجاہدین کی مدد کے لیے آئے تھے۔ ان کی زیادہ قربت گلبدین حکمتیار، برہان الدین ربانی اور استاد سیاف جیسے لوگوں کے ساتھ رہی۔ پھر امریکا نے اسامہ بن لادن جیسے عرب مجاہدین کے بارے میں یوٹرن لیا اور جواب میں اسامہ بن لادن نے بھی یوٹرن لے کر امریکا اور سعودی حکومت کو اپنا دشمن نمبر ون ڈکلیئر کیا۔
اسامہ بن لادن کو سوڈان سے افغانستان گلبدین حکمتیار نے بلایا تھا اور افغانستان کی شہریت طالبان کے ہدف نمبرون برہان الدین ربانی نے بطور صدر عنایت کی تھی۔ طالبان کے جلال آباد پر قبضے کے بعد اسامہ بن لادن اور انکے ساتھی طالبان سے مل گئے۔ نائن الیون کے بعد چین اور روس کی حمایت سے سلامتی کونسل سے منظور ہونے والی قرارداد کے مطابق افغانستان میں کارروائی کا آغاز کیا گیا تو جنرل پرویز مشرف نے طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ(ن) نے اس فیصلے کی مخالفت کی لیکن عمران خان صاحب پرویز مشرف کی حمایت کرتے رہے۔ یہ فیصلہ پرویز مشرف نے اکتوبر 2001میں کیا اور خان صاحب 2002کے الیکشن تک پرویز مشرف کے بھرپور حامی تھے۔ حتیٰ کہ جعلی ریفرنڈم کے دوران ان کی حمایت میں جلسے بھی کیے تاہم 2002کے انتخابات میں جب پرویز مشرف نے اقتدار ان کے بجائے مسلم لیگ (ق) کو دینے کا فیصلہ کیا تو عمران خان صاحب مخالف کیمپ میں چلے گئے۔
تاریخی طور پر یہ بات بھی غلط ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے فوج کو قبائلی علاقوں میں بھیجنے کے فیصلے کی مخالفت کی کیونکہ فوج نومبر 2001میں قبائلی علاقوں میں گئی تھی جبکہ مخالفت میں ان کا پہلا بیان 2004میں ریکارڈ پر آیا۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ کی قیادت کے کچھ لوگ ایران منتقل ہوئے اور باقی پاکستان آئے۔
صافی کہتے ہیں پاکستان میں تحریک طالبان کو اصلاً القاعدہ نے منظم کیا اور اپنی کارروائیوں کے علاوہ اسے پاکستان میں اپنے پراکسی کے طور پر بھی استعمال کیا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس برس کے دوران اصل جنگ القاعدہ اور پاکستانی فوج کے مابین برپا رہی۔ افغان طالبان سے متعلق مختلف پالیسی کی وجہ سے پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگتا رہا۔
افغان طالبان اور پاکستانی طالبان بھی ایک دوسرے سے یکسر تھے کیونکہ نظریہ اور طریق کار دونوں کا ایک تھا لیکن افغان طالبان کی ترجیح افغانستان میں کارروائیاں جبکہ پاکستانی طالبان کی پاکستان میں کارروائیاں رہی تاہم اس میں کبھی کوئی ابہام نہیں رہا کہ ٹی ٹی پی دراصل القاعدہ کی فرنچائز تھی۔
گزشتہ دس پندرہ سال سے پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگتا رہا ہے۔ تاہم پاکستان کا اقوامِ متحدہ، امریکا اور دنیا کے سامنے کیس یہی رہا کہ اس نے اس جنگ میں چونکہ سب سے زیادہ قربانی دی ہے اس لیے اس کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔
امریکا ہر لحاظ سے بھارت کے قریب ہے لیکن صرف اس بنیاد پر پاکستان کی حکومت اس سے کشمیر کے معاملے میں مدد کا تقاضا کرتی رہی اور خود عمران خان صاحب جب پہلی مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملے تو ان کی ثالثی کی نام نہادپیشکش کو تاریخی کامیابی سے تعبیر کیا اور جب واپس آئے تو ان کا ایسا استقبال کیا کہ جیسے کشمیر فتح کرکے آرہے ہوں۔
طالبان کے ساتھ امریکا کے مذاکرات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بعد امریکا کی طرف سے ڈبل گیم کے الزامات میں کمی آئی تھی جبکہ آرمی چیف اور ان کی ٹیم کے حالیہ دورۂ کابل کے بعد افغان حکومت کا الزامات کا سلسلہ تھم گیا تھا لیکن اب ہمارے وزیراعظم نے نہ صرف یہ کہ اسامہ بن لادن کو شہید کہہ دیا بلکہ پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑ ے ہوکر، ملک کے وزیراعظم کے طور پر یہ بھی تاثر دیا کہ وہ تو اس جنگ کے شروع دن سے مخالف تھے۔
اب دنیا کہے گی کہ جس ملک کے وزیراعظم اسامہ کو شہید سمجھتے ہوں اور اس جنگ کے خلاف ہوں تو کیوں کر اس ملک نے اس جنگ میں صحیح ساتھ دیا ہو گا؟ کل افغان میڈیا میں پاکستان پر ڈبل گیم کے الزام کے لیے ملابرادر کے پاکستانی پاسپورٹ کاتذکرہ زوروں پر تھا اور ایک دن بعد وزیراعظم صاحب نے ایسا مواد فراہم کیا کہ آج پورے امریکہ، مغربی اور انڈین میڈیامیں اسامہ بن لادن کو شہید کہنے کے وزیراعظم کے بیان کا غلغلہ ہے۔ یقیناً ایبٹ آباد کے واقعے سے پاکستان کی بڑی سبکی ہوئی لیکن اس وقت جو لوگ مختار تھے، ان کا وزیراعظم نے کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
سلیم صافی نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم کے بقول ان کو اس واقعے سے شدید تکلیف ہوئی اور یقیناً ہر پاکستانی کو ہوئی تھی تو پھر ہمت کرکے وہ رپورٹ تو سامنے لے آئیںکہ قوم کو پتا چلے کہ کون ذمہ دار تھے اور یہ بھی معلوم ہو کہ موجودہ چیئرمین نیب جو کہ اس وقت ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ تھے نے کتنی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے؟