جب پچھلی صدی میں، میں پہلی دفعہ امرتا کو ملنے گیا تو امروز بھی موجود تھا اور اس نے ہمیں چائے بنا کر دی۔ میں نے جب باتوں میں اس کو بتایا کہ میں لائلپور سے آیا ہوں تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے بتایا کہ اس کا تعلق بھی لائلپور کے ایک گاؤں سے ہے۔
امروز کا نام اندرجیت سنگھ تھا۔ جب وہ میڑک میں تھا تو اس نے ’کیس‘ کٹوا دیے۔ اسے فنون لطیفہ سے قدرتی دلچسپی تھی۔
پھر یہ ہوا کہ جب بھی میں دہلی جاتا تو امرتا کو ملنے ضرور جاتا۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا کہ میں دنیا کی بہت بڑی ادیب سے ملتا۔ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ ہر ملاقات میں امروز وہاں موجود ہوتا اور ہماری گفتگو میں بھی شریک ہوتا اور اپنے پس منظر اور فن کے بارے میں بات کرتا مگر میں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہ کی کہ امروز سے بھی الگ بات چیت یا انڑویو کیا جائے۔ گو پہلی ہی ملاقات میں مجھے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ امروز کی ایک الگ، اپنی تاریخ، پس منظر اور شخصیت ہے۔
ان کے گھر میں جگہ جگہ امروز کی پینٹنگز لگی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے پسندیدہ شعروں کو لیمپ شیڈ اور دیواروں پر بھی پینٹ کرتا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امرتا بہت بڑی لکھاری تھی لیکن امروز بھی اپنے فن میں یکتا تھا۔ دور دور سے لوگ اس کے پاس بک کور بنوانے آتے تھے۔ امروز نے بتایا کہ وہ کبھی کام لینے کسی کے پاس نہیں گیا خواہ کوئی کتنا ہی معاوضہ دینا چاہے۔ جس نے بھی کام کروانا ہے وہ اس کے گھر آئے۔
جب امرتا کا انتقال ہو گیا تو میں امرتا کا افسوس کرنے دہلی امروز کے پاس اسی گھر میں گیا وہ امرتا کی باتیں کرتا رہا اور ہم دونوں اس عظیم شخصیت کو یاد کرتے رہے۔ پھر امروز مجھے بس سٹاپ تک چھوڑنے آیا۔
امروز نے مجھے امرتا کا کمرہ دکھایا جو کہ انہوں نے اسی طرح رکھا ہوا تھا جس طرح کہ وہ امرتا کی زندگی میں تھا۔ امروز کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ کسی وقت بھی امرتا واپس آ جائے گی‘۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ہمارا ہالینڈ کا دوست اسد مفتی مجھے، منو بھائی اور کئی اور دوستوں کو پٹیالہ یونیورسٹی پنجابی کانفرنس میں صحافی کلدیپ نائر کی دعوت پر، شریک ہونے کے لئے لے گیا۔ اس کانفرنس کی سب سی اچھی بات یہ تھی کہ میں امروز سے تفصیل کے ساتھ اس کی زندگی، فن اور امرتا کے بارے، اور خاص کر ان کے عشق کی بارے میں بات کر سکا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک پینٹر، امرتا کے مرنے کے بعد خود بھی شاعر بن گیا۔ اس نے مجھے اپنی کچھ نظمیں بھی دیں جو بد قسمتی سے کہیں گم ہو گئی ہیں۔
عام لوگوں کو اور ادب کے قاریئن کو امرتا اور ساحر کے بارے میں تو بہت کچھ معلوم ہے مگر ’ امروز‘ کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔
میں نے پہلی ہی ملاقات میں اندازہ لگا لیا کہ امرتا بہت ہی خوش قسمت ہے کہ اسے امروز جیسا ایک جیون ساتھی مل گیا ہے۔ امروز بہت ہی سلم اور سمارٹ تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ وہ خوش شکل اور خوش سیرت بھی تھا۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جس طرح سے اس نے ساری عمر اور خاص کر، آخری دنوں میں امرتا کی خد مت کی شائد ہی کوئی اور کر سکتا۔ اسی لئے خوشونت سنگھ نے امرتا کے مرنے پر انگریزی رسالہ ’آؤٹ لک‘ میں لکھا کہ ’ امرتا کا عشق تو ساحر سے تھا مگر جس طرح امروز نے امرتا کی آخری دنوں میں خد مت کی کوئی اور نہیں کر سکتا تھا‘۔ امرتا نے مجھے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’ امروز کا ملنا بھگوان کا ملنا ہے‘۔
امروز [اندجیت سنگھ] لائلپور کے ایک گاؤں کا رہنے ولا سکھ تھا جسے پینٹنگ سے بہت دلچسپی تھی۔ جب کبھی وہ شہر آتا تو بھوانہ بازار میں جلال پینٹر کو فلمی بورڈ بناتے ہوئے کئی گھنٹے دیکھتا رہتا اور کبھی کبھی رات کو دکان کے ساتھ لکڑی کے تختے پر سو جاتا۔
اس کے اشتیاق کو دیکھ کر اسے لاہور ’میو سکول آف آرٹس‘ (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) میں داخل کروا دیا گیا مگر امروز نے جلد ہی پڑھنا چھوڑ دیا۔ جب اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے کام پر کسی استاد کی چھاپ نہ لگ جائے۔ اس نے کہا کہ ’ہوتا یہ ہے کہ استاد کی چھاپ شاگرد پر ایسی لگتی ہے کہ وہ اپنا تخلیقی رجحان چھوڑ کر استاد کی نقل میں لگ جاتا ہے‘۔
سو اس نے سکول چھوڑ کرچند روپے کے عوض میکلوڈ روڈ لاہور پر سنیما کے لئے فلمی بورڈ بنانے شروع کر دیے۔
تقسیم کے بعد وہ دہلی چلا گیا جہاں اس نے مختلف کام کیے اور آخر کار بک کور بنانے میں مہارت حاصل کر لی۔
امروز نے بتایا کہ کس طرح اس کی پہلی ملاقات امرتا سے ہوئی۔ اس کے آرٹست دوست سیٹھی کو امرتا نے اپنی کتاب ’آخری خط‘ کا ٹائِٹل (بک کور) بنانے کے لئے کہا۔ سیٹھی نے امرتا سے کہا کہ اس کا ایک دوست اس سے بھی بہتر بک کور بناتا ہے اور وہ اسے امرتا کے گھر امرتا سے ملانے لے گیا۔ اس طرح اس کی امرتا سے پہلی ملاقات ہوئی۔
امرتا کے ساتھ تعلقات بڑھنے کے بارے میں امروز نے بتایا کہ میں اور امرتا دہلی میں پٹیل نگر میں رہتے تھے۔ میں امرتا کو روز سائیکل پر ریڈیوسٹیشن جاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ میرے پاس سکوٹر تھا۔ ایک دن میں نے امرتا کو لفٹ کا پوچھا تو اس نے انکار نہیں کیا اور اس طرح یہ روز مرہ کا معمول بن گیا کہ میں روزانہ امرتا کو ریڈیو سٹیشن چھوڑ کر آتا اور شام کو واپس گھر لاتا۔ اسی طرح اس کے بچوں کو بھی سکول چھوڑ کر آتا اور واپس گھر لاتا۔ پھردونوں نے مشترکہ طور پر کار خرید لی۔
امروز نے بتایا کہ 'یہ کوئی First sight love نہیں تھی۔ شناسائی سے دوستی کے سفر میں تین سال لگے‘۔
1958 میں، میں نے گورو دت کی فلم ’پیاسا‘ کے لئے کام کیا۔ ایک دن اس نے مجھے کہا کہ تم بمبئی آ جاؤ۔ پھر چند روز بعد مجھے خط ملا کہ تمہاری بمبئی میں پکی نوکری ہو گئی ہے اور تم فلاں تاریخ کو آ جاؤ۔ میں نے رسالہ ’شمع‘ سے استعفا دے دیا اور بمبئی کا ٹکٹ خرید لیا۔ چونکہ امرتا سے دوستی تھی، اس لئے میں نےاسے خط دکھایا۔ وہ خوش بھی تھی اور افسردہ بھی۔ اس نے رونا شروع کر دیا۔ جوڑے کو احساس ہو گیا کہ وہ علیحدہ نہیں رہ سکتے۔ سو بمبئی سے واپسی پر امروز امرتا کے گھر منتقل ہو گیا۔
امرتا کےخاوند پریتم نے 20 سال بعد امرتا کو طلاق دے دی تھی جب وہ دوسری شادی کرنا چاتا تھا۔ لیکن جب وہ بہت بیمار ہو گیا تو امرتا اسے اور اس کے پریوار کو واپس اپنے گھر لے آئی اور وہ یہیں مرا۔
’ہمارا رشتہ تھا اس لئے ہمیں کسی قانونی آڑ کی ضرورت نہ تھی۔ جن کا رشتہ نہیں ہوتا انہیں قانونی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے‘۔
امرتا نے اپنی وصیت میں گھر بچوں کو دے دیا تھا۔ اور اس میں واضح لکھا تھا کہ جس حصہ میں ہم رہتے تھے، جب تک امروز زندہ ہے، وہیں رہے گا۔
امرتا اور امروز کے الگ الگ کمرے تھے۔ ’ہم انفرادی آرٹسٹوں کی طرح رہتے تھے۔ ہم میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔ جب تک امرتا بہت سخت بیمار نہیں ہو گئی، ہم علیحدہ علیحدہ کمروں میں رہتے تھے۔ ہم ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے پر ملتے تھے یا جب کبھی امرتا اپنی نئی نظم سنانا چاہتی تھی، یا جب میں کسی فلم کا اچھا گیت اس کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا۔ پہلے میں اکیلا سنیما میں فلم دیکھتا تھا پھر ہم دونوں فلم دیکھنے جاتے تھے‘۔
’ امرتا صرف اس وقت سگریٹ پیتی تھی جب وہ لکھتی تھی۔ جب اس کے ذہن میں کوئی خیال آتا تھا تو وہ لکھنا شروع کر دیتی تھی اور بعد میں اس میں کانت چھانٹ نہیں کرتی تھی‘۔
’ امرتا ہیومنسٹ (انسانیت دوس) تھی۔ اس کے لئے یہ بہت ضروری تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھیں۔ ایک مہذب معاشرے میں مرد عورت کا نام اس کی مرضی کے بغیر نہ لے۔ اس کے ناول میں کوئی ولن نہیں ہوتا تھا۔ اس کے نزدیک غیر منقسم پنجاب کے صوفیا اس کا بہترین نمونہ تھے۔ اس کے کام میں زیادہ تر احتجاج اور ذہنی کرب تھا۔ انسانیت کو مذہب میں اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہ مذہبی تعصب سے نفرت کرتی تھی۔ بد قسمتی سے ہر مذہب کے ماننے والوں میں تعصب ہے‘۔
امروز نے اپنے گھر کو ’افراد کا گھر‘ قرار دیا جس میں ہر ایک کچن میں حصہ ڈالٹا تھا۔ امرتا ایک خوددار عورت تھی اور اپنی روزی خود کماتی تھی۔
امرتا کے مرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے امروز نے کہا ’ امرتا کو پتہ تھا کہ اب آخری وقت آ گیا ہے تو اس نے کپڑے بدلے اور کہا کہ مجھے غسل مت دینا۔ میں بہت نہا چکی ہوں۔ وہ ٹمپل اور گوردوارہ میں یقین نہیں رکھتی تھی۔ اس نے کہا کوئی رونا دھونا نہیں۔ کوئی مذہبی رسومات نہیں، میری راکھ کو دریا میں بہا دو۔ سو اس کی راکھ کو دریا جمنا میں بکھیر دیا گیا‘۔
’ہم نے امرتا کا کمرہ اسی طرح رکھا ہوا ہے جیسا کہ امرتا کی زندگی میں تھا۔ میں محسوس کرتا ہوں جیسے امرتا گھر میں ہے کیونکہ یہ ایک بہت پرانی دوستی اور چالیس سالوں کا ساتھ تھا‘۔
خوشونت سنگھ کے امرتا کی موت پر انگریزی رسالہ ’آؤٹ لک‘ میں مضمون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امروز نے کہا کہ ’خوشونت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے امرتا کے کہنے پر اس کے پہلے ناول ’پنجر‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امرتا نے اسے ترجمہ کرنے کے لئے کبھی نہیں کہا تھا۔ بلکہ اس نے امرتا کو دکھائے بغیر ترجمہ چھاپ دیا اور اس ناول کے بہت سارے اہم فقرے چھوڑ دیے‘۔
امرتا کی وفات کے بعد امروز نے بھی شاعری شروع کر دی۔ امروز نے بتایا کہ ’جب امرتا بستر مرگ پر تھی تو اس کے دوستوں اور چاہنے والوں نے امرتا کے بارے میں نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔ جب یہ مسودہ پبلشر کے پاس گیا تو اس نے اسے کہا کہ تم امرتا کے بہت پیارے تھے اور اتنا لمبا عرصہ ساتھ رہے ہو، تم نے کچھ نہیں لکھا۔ سو اس طرح میں نے اپنی زندگی کی پہلی نظم لکھی اور اب میری شاعری کی کتاب چھپے گی‘۔