ہر سال پوری دنیا میں مختلف تنظیمیں منشیات کا عالمی دن منانے میں شامل ہوتی ہیں تاکہ اس بڑے مسئلے کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں مدد کی جا سکے۔ اس دن کا مقصد منشیات کے غیر قانونی پھیلاؤ سے معاشرے کو لاحق خطرات سے آگاہی دلاناہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تمام لوگ مل کر ہی منشیات کے عالمی مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کی جانب سے 2021 میں جاری کردہ ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق، گذشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً 275 ملین افراد نے منشیات کا استعمال کیا۔ جبکہ 36 ملین سے زائد افراد منشیات کے استعمال کے عوارض کا شکار ہوئے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2010-2019 کے درمیان منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 22 فیصد اضافہ ہوا، جس کی وجہ عالمی آبادی میں اضافہ ہے۔ صرف آبادیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر، موجودہ تخمینے بتاتے ہیں کہ 2030 تک عالمی سطح پر منشیات استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 11 فیصد اضافہ ہوگا۔ اور افریقہ میں اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اور نوجوان آبادی کی وجہ سے 40 فیصد کا واضح اضافہ ہوگا۔
عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تیسواں بڑا اور 210 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ملک میں نوجوانوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، جس کی 64 فیصد آبادی 29 سال سے کم اور 30 فیصد آبادی 15 سے 29 سال کے درمیان ہے۔
ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان ایشیا کی پانچ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہے، جس نے 2017 میں 5.7 فیصد سے زیادہ شرح نمو درج کی۔ یہ رجحان 2018 میں بھی جاری رہا۔ آج تک، کراچی ملک کا اہم تجارتی اور اقتصادی مرکز بنا ہوا ہے لیکن ایک اور بندرگاہی شہر گوادر کی جاری ترقی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے شروع ہونے والے علاقائی رابطوں کے ساتھ، ملک کی بین الاقوامی تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے ایک بڑا محرک متوقع ہے۔
خطے کے دیگر ممالک کی طرح، پاکستان کو بھی بین الاقوامی منظم جرائم (TOCs) کے میدان میں اہم چیلنجز کا سامنا ہے، جس کے لیے قومی حکام کی جانب سے بین الاقوامی تعاون کے ساتھ مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پاکستان TOCs پر متعدد کثیر الجہتی معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے جن میں منشیات کی سمگلنگ اور بدعنوانی سے متعلق معاہدے شامل ہیں، لیکن قومی سطح پر ان معاہدوں کے موثر نفاذ کو بڑھانے کے لیے کوششیں مزید تیزکرنی ہونگی۔
UNODC اس خلا کو پر کرنے کے لیے حکومت پاکستان اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان اور یو این او ڈی سی کے درمیان دسمبر 2016 میں ایک ملکی پروگرام (2016-19) پر دستخط کیے گئے تھے، جس میں دونوں فریقوں نے غیر قانونی سمگلنگ اور بارڈر مینجمنٹ کے شعبوں میں مشترکہ طور پر کام کرنے کے عزم کو اجاگر کیا گیا تھا۔ جس میں فوجداری نظام انصاف، قانونی اصلاحات، منشیات کی طلب میں کمی، روک تھام اور علاج جیسے اقدامات شامل ہیں۔
منشیات کا استعمال کسی بھی طورپر مفید نہیں ہو سکتا۔ منشیات ناصرف مال ودولت کے ضیاع کا ذریعہ ہے بلکہ اس سے انسانی جسم پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو بعض اوقات اپنی جان کے علاوہ دوسروں کی جان کیلئے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جرم کرنے والے منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔ لکی مروت کو خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں منشیات کے حوالے سے بین الصوبائی گزرگاہ کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ منشیات کراچی لے جانا ہو یا لاہور، لکی مروت کے راستے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ کئی دہائیاں قبل صرف چرس اور افیون جیسی منشیات سے ہی لوگ واقف تھے۔ لیکن 1979 سے افغان جنگ کے بعد ہیروئن کی لعنت سے لوگوں کو شناسائی ہوئی۔ اور اب افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد منشیات کی ایک نئی قسم آئس یعنی کرسٹل میتھ سے لوگ آشنا ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ نشہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کو لڑنے اور دیر تک نیند نہ آنے کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے لیکن اب یہاں اس کا استعمال منفی کیا جا رہا ہے۔
لکی مروت میں بھی دیگر منشیات کی طرح آئس ( کرسٹل میتھ) کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ کرسٹل میتھ جسے آئس کہا جاتا ہے لکی مروت کے نوجوانوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آئس ایک جان لیوا نشہ ہے، ایک بار لت پڑ جائے تو یہ آسانی سے نہیں چھٹتی۔ پاکستان میں پانچ چھ سال پہلے تک یہ نشہ امیر طبقے میں عام تھا لیکن اب یہ عوام میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان اینٹی نارکوٹکس فورس کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 70 لاکھ لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں۔ آئس کا نشہ زیادہ تر تعلیمی اداروں، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کی طرف سے پچھلے سال جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں نشہ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 67 لاکھ ہے جن میں سے 20 لاکھ نشے کے عادی ہیں جبکہ یہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق پاکستان کے 15 سے 64 سال تک عمر کے 8 لاکھ شہری ہیروئن کا استعمال اپنا معمول بنا چکے ہیں۔
ہر سال پاکستان میں استعمال ہونے والی ہیروئن کی مقدار کا تخمینہ 44 ٹن لگایا گیا ہے جبکہ مزید 110 ٹن ہیروئن اور مارفین افغانستان سے پاکستان لا کر بین الاقوامی منڈیوں میں بیچی جاتی ہے۔ ہر سال پاکستان میں منشیات کی تجارت سے حاصل کئے جانے والے کالے دھن کا تخمینہ 2 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
لاہور میں انسداد منشیات کی ایک تنظیم سے وابستہ کنسلٹنٹ سید ذوالفقارحسین نے انسداد منشیات مہم 2021 کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ منشیات استعمال کرنے والا ایک عادی شخص روزانہ اوسطاً 450 روپے سے 1000 روپے تک خرچ کرتا ہے۔ اسی طرح دستیاب معلومات اور اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران لاہور کی سڑکوں اور پارکوں میں نشے کے عادی 460 افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔
لکی مروت میں آئس کا نشہ کیوں بڑھ رہا ہے؟
لکی مروت کے علاقے کرم پار تھانہ ڈاڈیوالہ کے 20 سالہ نوجوان جاوید (فرضی نام) نے بتایا کہ آئس کا نشہ دوست کیساتھ شروع کیا تھا اوراب عادی بن چکا ہوں۔ ایک گرام آئس 1500 سے لے کر 3000 تک ملتی ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ آئس شروع کرنے کے بعد مجھے ذہنی اور جسمانی سکون ملتا تھا۔ 48 گھنٹوں تک نیند نہیں آتی تھی لیکن جب یہ نشہ نہیں کرتا تو پھر بے چینی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔ اگرچہ آئس مہنگا ہے لیکن لکی مروت میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جنوری 2022 سے نئے علاقہ ایس ایچ او تھانہ ڈاڈیوالہ کی تعیناتی سے آئس اور دیگر منشیات کی ریل پھیل ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ جاوید کے اس دعویٰ کی حقیقت جاننے کیلئے ہم نے ڈسٹرکٹ پولیس آفس لکی مروت کے پی آر او سے یکم جنوری 2022 سے 31 مئی 2022 تک کی منشیات برآمد کرنے کی تفصیلات حاصل کیں۔ جس سے واضح ہوا کہ تھانہ ڈاڈیوالہ جس کی سرحدیں خیبرپختونخوا کے اضلاع بنوں اور کرک جبکہ پنجاب کے ضلع میانوالی سے ملتی ہیں۔ اسی تھانے کی حدود سے کراچی اور پنجاب جانے والی گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن پانچ مہینے میں صرف 448 گرام چرس ہی برآمد ہو سکی ہیں۔ مذکورہ ایس ایچ او کو سال 2020 میں کئی من چرس خورد برد کرنے کے الزام میں پانچ دیگر پولیس ملازمین سمیت ملازمت سے فارغ کیا گیا تھا۔ لیکن مذکورہ ایس ایچ او بعد میں اثرورسوخ کی وجہ سے بحال ہو گئے جبکہ دیگر پانچ پولیس ملازمین ابھی تک دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورہیں۔
ضلع لکی مروت کے تھانہ سرائے گمبیلا میں درج ایف آئی آر نمبر 180 مورخہ 6 اکتوبر 2020 کے مطابق 26 ستمبر کو رات ڈھائی بجے پولیس کانسٹیبلان غلام قادر اور سعید خان نے ایک مشتبہ ٹرک کو روکا۔ اس دوران ایس ایچ اوتھانہ سرائے گمبیلا عرفان خان، صفی اللہ، حبیب الرحمن اور زبیر خان کے ہمراہ آئے۔ ٹرک کی تلاشی لے کر 120 کلوگرام چرس برآمد کی۔ لیکن برآمد شدہ منشیات کو ظاہر کئے بغیر انہوں نے ملزم سے مبلغ 16 لاکھ روپے رشوت لے کر منشیات کی بھاری کھیپ غائب کر دی۔
ایس ایچ او عرفان نے مذکورہ ٹرک ڈرائیور ایوب خان کو تین کلو گرام چرس کی برآمدگی کا پرچہ دیا۔ اس طرح انہوں نے ذمہ دار پولیس آفیسر کی حیثیت سے کسی قسم کی کوئی قانونی کارروائی نہیں کی اور جرم کو پوشیدہ رکھا گیا۔ مذکورہ ایس ایچ او اور دیگر پولیس اہلکار جرم چھپا کر خیانت مجرمانہ کے مرتکب ہوئے۔ ان کا یہ فعل خلاف قانون، جرم قابل دست اندازی پولیس گردانا گیا۔ ایس ایچ او عرفان خان اور دیگر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر زیر دفعہ 118،119،164،200،201،202،409 درج کیا گیا۔
اگلے روز 27 اکتوبر 2020 کو اس وقت کے ڈی پی او عبدالرئوف بابر قیصرانی نے ایس ایچ او عرفان خان، ہیڈ کانسٹیبل غلام قادر، کانسٹیبل سعید، کانسٹیبل حبیب الرحمن، کانسٹیبل صفی اللہ اور کانسٹیبل زبیر کو مجرمانہ خیانت پر نوکری سے برخاست کردیا۔
ایس ایچ او عرفان خان نے ستمبر 2021 میں ڈی آئی جی بنوں کو اپنی برخاستگی کے خلاف اپیل کر دی جو انہوں نے مسترد کردی۔ اس کے بعد اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پشاور آئی جی پی آفس نے دوبارہ انکوائری کا حکم دیا۔ جس پر دوبارہ انکوائری کی گئی اور انہیں نوکری پر بحال کر دیا گیا۔ لیکن ایک ہیڈ کانسٹیبل سمیت کل پانچ ملازمین ابھی تک بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ اور سروس ٹریبیونل میں کیس چل رہا ہے۔ جب تک پولیس میں ایسے مکروہ چہرے موجود ہونگے تب تک منشیات جیسی لعنت کے خلاف جنگ جیتنامشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
لکی مروت میں آئس کی روک تھام کیلئے متعلقہ محکمہ پولیس نے سال 2021 میں آئس کے 53 مقدمات درج اور 54 ملزمان گرفتار کئے ہیں۔ جن سے 12 کلو 980 گرام آئس برامد ہوئی۔ سال 2022 میں 25 مئی تک 33 مقدمات درج اور 34 ملزمان گرفتار ہوئے۔جن سے 12 کلو 675 گرام ائس برامد ہوئی ہے۔
لکی مروت میں آئس کی مانگ میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
ڈی پی او لکی مروت شہزادہ عمر عباس بابر نے بتایا کہ آئس سمیت ہر نشہ کیلئے وسائل چاہیے ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو وسائل گھر سے نہیں ملتے تو وہ چھوٹے موٹے جرائم کا رخ کرتے ہیں۔ جب گھر والے ان سے یہ نہیں پوچھتے کہ پیسے کہاں سے آئے؟ تو کیسے نوجوانوں کو کنٹرول کیا جائے گا۔ دوسری اہم وجہ علاقے میں نوجوانوں کیلئے کوئی تعمیری سرگرمیاں نہ ہونا ہے۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان منشیات کی طرف ہی راغب ہوتے ہیں۔ شہزادہ عمر عباس بابر نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر دوسری اہم وجہ امن وامان ہے۔ دہشتگردی کی وجہ سے بھی منشیات فروشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کی آمدن کا اہم ذریعہ آئس، چرس اور ہیروئین ہیں۔ دہشت گرد منشیات، ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان سے ہی اپنے اخراجات پوری کرتے ہیں۔ جب بھی کہیں امن وامان کی حالت خراب ہوتی ہے تو یہ کاروبار پروان چڑھتا ہے۔ جیسے افغانستان میں اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب پاکستان بالخصوص جنوبی اضلاع میں یہ کاروبار پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں ہمیں منشیات کے خلاف بڑی کاروائیاں کرنی پڑیں گی۔
لکی مروت میں منشیات کی فروخت اور روک تھام کے حوالے سے ڈی پی او لکی مروت شہزادہ عمر عباس بابر سے سوال کیا گیا کہ عوام سمجھتے ہیں کہ منشیات کے کاروبار میں پولیس ملوث ہے۔ کیا آئس اور دیگر منشیات کے کاروبار میں پولیس اہلکار ملوث ہیں؟
تو انہوں نے کہا کہ عوام کی شکایات کچھ حد تک درست ہیں کہ پولیس والے منشیات فروشوں کو چھاپہ پڑنے سے پہلے اطلاع دیتے ہیں۔ کیونکہ پولیس والے خود تو منشیات فروشی نہیں کرتے لیکن کسی کا کوئی رشتہ دار، قریبی عزیز یا دوست ضرور اس کاروبار سے منسلک ہوتے ہیں۔ لیکن بحیثیت ادارہ پولیس منشیات فروشی میں ملوث نہیں ہے۔ اور نہ ہی پولیس کی اکثریت منشیات فروشی یا سمگلنگ میں ملوث ہے، البتہ کچھ اہلکار ضرور ملوث ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ منشیات کی روک تھام کا بنیادی حل جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ منشیات کی طلب کو ختم کیا جائے۔ اس میں پولیس کے ساتھ دیگر محکموں اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ایک ایکشن پلان بنانا ہوگا جس میں تمام محکموں اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی طور پر منشیات کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم منشیات کی روک تھام کیلئے محکمہ سوشل ویلفیئر، ہیلتھ، تعلیم، پولیس اور محکمہ جیل کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ محکمہ تعلیم، اساتذہ، والدین،علما، مشیران، نومنتخب نمائندگان مل کر اس کے تدارک میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اساتذہ طالب علموں پر نظر رکھیں۔ والدین سکول کے بعد کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔ نومنتخب نمائندے سپورٹس اور دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کریں۔ پولیس،ایکسائز اور انسداد منشیات کے اداروں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ منشیات کی فیکٹریوں، ایجنٹوں، اور سپلائرز کے خلاف بلاتفریق کاروائی ہونی چاہیے۔
آئس کے استعمال سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
منشیات بالخصوص آئس نشہ کے جسم پر اثرات کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لکی مروت کے کنسلٹنٹ نیورو سرجن ڈاکٹر عبدالواجد مروت نے بتایا کہ آئس نشہ میتھ ایمپٹامین نامی کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ انسان کے دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے تیز کر دیتا ہے۔ بنیادی طور پر آئس کے دو طرح کے اثرات ہوتے ہیں۔ ایک مختصر اور دوسرا طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں۔ آئس پینے سے وقتی طور پر مریض کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے فوری اثرات میں مریض کی دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ مریض کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ بھوک نہیں لگتی،نیند نہیں آتی اور انتہائی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی زیادہ پینے سے مریض کو دل کا مسئلہ بھی پیش آتا ہے۔ سانس کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ اس حد تک جا سکتا ہے کہ وہ مر جائے۔ طویل مدتی اثرات میں آئس انسان کی مرکزی اعصابی نظام کو آہستہ آہستہ متاثر کرتی ہے۔ اس میں مریض کا موڈ آف ہوتا ہے، خفہ ہوتا ہے، تھکاوٹ زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے، جنسی شہوت ختم ہو جاتی ہے۔ بدن پر خارش شروع ہو جاتی ہے، اسی طرح طویل مدتی اثرات میں مریض خوف زدہ ہو جاتا ہے، خوف محسوس کرتا ہے، انہیں خوف ہوتا ہے کہ کوئی اسے مار دے گا۔
ڈاکٹر عبدالواجد مروت نے بتایا کہ آئس نشے کا شکار بندہ واپس بہتری کی طرف آسکتا ہے۔ تین مہینے سے لے کر 12 مہینے تک وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ آئس ایک خطرناک اور جان لیوا نشہ ہے۔ اگرچہ کینسر بھی ایک بڑی بیماری ہے لیکن آئس اس سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ کینسر ایک انسان کی جان لے سکتا ہے۔ جبکہ آئس پورے معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے۔ ایک پورے نسل کی تباہی ہے۔ آئس جسمانی لحاظ سے اور اخلاقی لحاظ سے بھی معاشرے کو تباہ کرتی ہے۔
آئس سے متاثرہ افراد کا علاج کیسے اور کہاں ہوتا ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہم نے ضلع بھر میں معلومات حاصل کیں۔ جس کے بعد معلوم ہوا کہ لکی مروت میں منشیات سے متاثرہ افراد کی بحالی کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ ممتاز سماجی کارکن ملک وقار کہتے ہیں کہ اس سلسلے انہیں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ پہلے تو منشیات کے عادی افراد علاج کیلئے راضی نہیں ہوتے اور اگر راضی ہو جائیں تو انہیں بحالی مرکز تک لے جانے کیلئے درکار وسائل آڑے آ جاتے ہیں۔ اگرچہ ہم پھر بھی مخیر حضرات کے تعاون سے منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے کیلئے بندوبست کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ مستقل حل نہیں بلکہ یہاں ایک بحالی کا ادارہ ہونا چاہیے۔
تحصیل چیئرمین لکی مروت شفقت اللہ خان آئس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
تحصیل چیئرمین لکی مروت شفقت اللہ خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے سابق صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان سے درخواست کی تھی کہ یہاں لکی مروت میں منشیات بحالی مرکز قائم کیا جائے تاکہ نوجوانوں کو منشیات کی لعنت سے چھٹکارا دلا سکیں۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ جلد ہی لکی مروت میں منشیات بحالی مرکز قائم کر دیا جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے انہوں نے وزارت ہی چھوڑ دی۔ اب وہ اپنے محدود وسائل سے اس طرح کو منصوبہ بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
آپ نے منشیات سے نوجوانوں کے بچاؤ اور بحالی کیلئے اپنی دو وزارتوں میں کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں سابق صوبائی وزیر صحت وسوشل ویلفیئر ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے بتایا کہ جب میں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر تھا تو میں نے صوبہ خیبرپختونخوا کا پہلا Model Detoxification and Rehabilitation Center for Drug Addicts (Male, Female and Children) منظور کروایا۔ جو پچھلے اے ڈی پی میں بھی شامل تھا۔ اب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان سے ہدایات لی ہے۔ جلد ہی پی ڈی ڈبلیو پی سے منظوری مل جائے گی۔ جس کے بعد ٹینڈرز وغیرہ کا عمل شروع ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس کے قیام کے سلسلے میں مسلسل کوششیں کر رہا ہوں۔ یہ صوبہ خیبرپختونخوا کا پہلا جدید سہولیات سے آراستہ ماڈل سینٹر ہوگا۔ جس میں منشیات کے مریضوں کیلئے وارڈز قائم ہونگے۔ عموماً ڈی ٹاکسی فیکیشن محکمہ صحت کا کام ہے۔ لیکن جب میں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر تھا تو میں نے کابینہ کے ذریعے اس کی منظوری حاصل کی کہ یہ کام سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کرینگے۔ اس میں منشیات کے عادی مرد وخواتین کے ساتھ ساتھ بچوں کا علاج بھی ہوگا۔ ہر قسم کے منشیات کے مریضوں کی علاج گاہ ہوگی۔ اس منصوبے پر تقریبا 20 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت آئے گی۔