مغوی لڑکی کے والد کی درخواست پر ضلع بدین کے پنگریو پولیس سٹیشن میں اس معاملے کی ایف آئی آر درج کروائی جا چکی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ رواں ماہ 17 مارچ کو چار مسلح افراد نے ان کے گھر میں گھس کر ان کی 14 سالہ بیٹی کو اغوا کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چار میں سے تین اغوا کار نامعلوم تھے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا، ان کی بیٹی کی زندگی انتہائی خطرے میں ہے چنانچہ وہ انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی ’’مغوی‘‘ بیٹی کی بازیابی کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں۔
جبری تبدیلئ مذہب کے اس معاملے میں بھی پیر سرہندی کے مدرسے کا نام لیا جا رہا ہے کیوں کہ مبینہ اغواکاروں میں سے ایک شخص نے لڑکی کے مبینہ شوہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس نے 17 مارچ کو پیر سرہندی کے مدرسے میں لڑکی سے شادی کی تھی۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ لڑکی کی عمر 14 نہیں بلکہ 19 برس ہے۔
ضلع عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس نے اور اس کی مبینہ بیوی نے اپنے تحفظ کے لیے ضلع سانگھڑ کی مقامی عدالت میں درخواست دائر کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ، گھوٹکی کی نومسلم بہنوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم
انسانی حقوق کے کارکن مکیش میگھواڑ کہتے ہیں، ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر اغوا کر کے ان کا مذہب ’’گہری‘‘ سازش کے تحت تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بدین سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی لڑکی سمیت ان حالات سے گزرنے والی دیگر لڑکیوں کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ اس وقت خبروں میں آیا ہے جب وفاقی حکومت نے کچھ ہی روز قبل گھوٹکی میں دو نوعمر لڑکیوں کے مبینہ طور پر مذہب کی تبدیلی اور شادی کے واقعہ پر نوٹس لیا ہے۔
اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دو ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں سے ایک میں نومسلم بہنوں رینا اور روینہ کے والد یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کیا گیا ہے لیکن دونوں بہنوں کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گردش کر رہی ویڈیو میں وہ مبینہ طور پر اسلام قبول کرکے شادی کرنے کا دعویٰ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
یاد رہے کہ پولیس نے اس کیس میں نکاح خواں سمیت سات افراد کو حراست میں لیا تھا۔