ذرائع کے مطابق قبل ازیں جب شہباز شریف نے اپنے ہم خیال لیگی رہنما خواجہ آصف کے ذریعے ملنے والے مبینہ طور پر مقتدر حلقوں کے ایک ہنگامی پیغام پر واپس پاکستان پہنچتے ہی فی الفور متحرک ہو کر ایسی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں جن سے عمران خان کی قیادت میں قائم موجودہ سویلین سیٹ اپ کو بھی اپوزیشن کی طرف سے بالواسطہ مزید تائید اور تقویت مل رہی تھی تو مریم نواز نے لندن میں مقیم اپنے والد، پارٹی قائد نواز شریف سے فون پر رابطہ کر کے اپنے چچا کی شکایت کی تھی۔ ذرائع کے مطابق مریم نواز نے پارٹی صدر کی سرگرمیوں پر شدید تحفظات اور سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نواز شریف سے کہا کہ شہباز شریف کے حالیہ سیاسی کردار سے پارٹی کو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا جس کا نتیجہ اور خمیازہ ہمیں آئندہ الیکشن میں بھگتنا پڑے گا، اور تب تک بہت دیر ہوچکی ہو گی اور ہم اس نقصان کی تلافی نہیں کر پائیں گے۔ مریم نواز نے اپنے والد سے زور دے کر کہا کہ وہ آپ کی پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں، آپ انہیں روکیں۔
کرونا وائرس بحران کی آڑ میں مقتدر قوتوں نے ایک طرف تو پی ٹی آئی کو نکال کر باقی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی، اپوزیشن کی اس مجوزہ اے پی سی کے لئے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو وطن واپس بلوا کر لیڈنگ رول دیا گیا، جنہوں نے پاکستان پہنچتے ہی اہم اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت سے رابطے شروع کر دیئے تو دوسری طرف مقتدر قوتیں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی طرف سے اپنی جماعت پی ٹی آئی سمیت پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے رہنماؤں یعنی پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس کے انعقاد کی بھی پشت پناہی کر رہی تھیں، جو کرونا وائرس کے مسئلے سے نمٹنے بارے طلب کی جا رہی تھی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان اس کانفرنس کے انعقاد کے حامی نہیں تھے مگر مقتدر حلقوں کے مبینہ دباؤ پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی کوششوں میں مداخلت نہیں کر رہے تھے، البتہ نہ تو اپوزیشن پارٹیوں کی اس مجوزہ اے پی سی کا انعقاد ہو سکا جس کے لئے شہباز شریف نے وطن واپسی کے فوری بعد سیاسی رابطے شروع کر دیے تھے اور نہ ہی وزیر اعظم عمران خان کی ایک move کے نتیجے میں پارلیمانی اے پی سی کامیابی سے ہمکنار ہو پائی۔ اسی دوران منگل 24 مارچ کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک لائیو پریس کانفرنس میں موجود بعض میڈیا پرسنز کی طرف سےجارحانہ انداز میں سخت سوالات کے تابڑ توڑ حملوں کا واقعہ رونما ہو گیا، جس سے وزیراعظم اور ان کی حکومتی ٹیم کے ارکان کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے نزدیک یہ انتہائی غیر متوقع واقعہ تھا جس کا وزیراعظم نے سخت نوٹس لیتے ہوئے بہت برا منایا ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا میں براہ راست دیکھی اور سنی جانے والی اس ٹرانسمشن میں ان کے ساتھ میڈیا کی طرف سے بدتمیزی کا سامان کیا گیا، جس کے نتیجے میں انہیں قدرے شرمندگی اور سبکی کا سامنا ہوا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی لائیو پریس کانفرنس کے لئے جن منتخب میڈیا پرسنز کو بلایا گیا تھا ان کی لسٹ چونکہ وفاقی وزیر اطلاعات کا درجہ رکھنے والی وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بنائی تھی، اس لئے عین ممکن ہے کہ وزیراعظم کی شدید ناراضگی کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں ان کی عہدہ سے رخصتی عمل میں آ جائے۔
لگ بھگ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے پیدا شدہ ایمرجنسی صورتحال کے باوجود گذشتہ ہفتہ اہم سیاسی مدوجزر میں گزرا جس کے دوران خاصی سیاسی ہنگامہ خیزی دیکھنے میں آئی، اس کا آغاز کئی ماہ سے مسلسل لندن میں قیام پذیر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی راتوں رات وطن واپسی سے ہوا اور اختتام کرونا وائرس کے معاملے پر وڈیو لنک پر بلائی گئی پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس کی ناکامی اور اس سے ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان کی لائیو سبکی پر ہوا۔ البتہ اس دوران نون لیگ کے مرکزی رہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف زرداری منظر سے غائب رہے کہ آصف زرداری مقتدر حلقوں کے ساتھ مبینہ خاموش مفاہمت کے بعد سے مسلسل قومی سیاسی منظر سے عنقا ہیں۔