کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا کی تیسری لہر بہت تیزی سے پھیل رہی ہے، سندھ میں ابھی کورونا وبا اس تیزی سے نہیں پھیل رہی لیکن کورونا کی وجہ سے ہم نے دوسری مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر تقریب نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش میں کوئی جلسہ نہیں ہو گا لیکن قرآن خوانی ہو گی اور 5 اپریل کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس ہو گا جس میں پی ڈی ایم کی جدوجہد کو آگے بڑھانے سے متعلق امور پر غور کریں گے۔
یوسف رضا گیلانی کو باپ کے ووٹوں سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کل سے میڈیا پر اس حوالے سے پروپیگنڈا ہو رہا ہے، آئینی اور جمہوری روایات کے مطابق 21 سینیٹرز کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان بالا میں دوسری بڑی جماعت ہے اس لیے یہ ہمارا جمہوری حق ہے کہ یہ عہدہ ہمارے پاس ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ میری جماعت کے لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، میں کیسے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا کہ آپ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ نہ دیں اور ن لیگ کے اعظم نزیر تارڑ کو ووٹ دیں جو ایک متنازع امیدوار تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ن لیگ کے پاس 26 امیدوار تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس بھی 21 سینیٹرز کے علاوہ اے این پی کے دو ممبرز، جماعت اسلامی کے ایک اور فاٹا کے دو سینیٹرز کے ساتھ ہمارے پاس بھی 26 ممبرز بنتے تھے، سینیٹ رولز کے مطابق دو امیدواروں کے برابر ووٹ ہوں تو اس صورت میں زیادہ امیدوار رکھنے والی جماعت کا ہی قائد حزب اختلاف ہوتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے سابق سینیٹر دلاور خان سے ہم نے رابطہ کیا تو انہوں نے ہمیں حمایت کا یقین دلایا اور پھر انہوں نے بتایا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تین آزاد سینیٹرز ان کے ساتھ ہیں، ان لوگوں نے ایک گروپ بنا رکھا ہے، میں اس فیصلے کا احترام کرتا ہوں کہ اگر حکومتی بینچز سے اٹھ کر لوگ اپوزیشن بینچز میں بیٹھ رہے ہیں تو ہمیں اسے سراہنا چاہیے، ہم حکومتی لوگوں کو توڑ کر ہی اس کٹھ پتلی حکومت کے خلاف پارلیمان میں جدوجہد کر سکتے ہیں۔
مریم نواز کی جانب سے پیپلز پارٹی پر تنقید سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا چاہوں گا کہ پی ڈی ایم کا اتحاد برقرار رہے کیونکہ اس کی بنیاد میں نے رکھی تھی، مریم نواز کی بہت عزت کرتا ہوں اور پی ڈی ایم کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا اس لیے ان کے بیان پر ردعمل نہیں دوں گا، آپ لوگ اپوزیشن کو کیوں لڑوائی کرنا چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا ایک اور سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ سلیکٹڈ کا لفظ تو میں نے ایجاد کیا تھا تو میں جانتا ہوں کہ اس لفظ کو کس پر استعمال کرنا ہے اور کس پر نہیں۔
انہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی صفوں میں دیکھیں کہ کون ہے جو انہیں پیپلز پارٹی سے لڑنے کے غلط مشورے دے رہا ہے، ہم ایک ساتھ رہ کر ہی اس حکومت کے خلاف جدوجہد کر سکتے ہیں۔