اب ملک کے ممتاز محقق، ماہر طبعیات اور دانشور پروفیسر پرویز ہود بھائی نے اس معاملے پر طنزو مزاح کے نشتر برساتے ہوئے مولانا کی خوب کلاس لی ہے۔
ڈان میں لکھے گئے اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ صحابہ اکرام جس زمانے میں تھے مولانا صاحب بھول گئے کہ اس وقت صوفے تھے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب کو اپنے موبائل فون، لگژری یو وی جیپ گاڑی جس میں پیڈڈ نرم سیٹیں لگی ہوئیں ہیں اور انکے محافظوں کے پاس موجود آٹومیٹک اے کے 47 بندوقوں کے بارے میں وضاحت کرنی ہوگی اور گیس بجلی اور پائپ کے ذریعئے آنے والے پانی جو کہ ساتویں صدی( رسول خدا ﷺ کے زمانے) میں نہیں تھا۔
اس طنزو مزاح کے بعد انہوں نے کہا کہ اب جبکہ فیٹف کی بلیک لسٹ کا معاملہ ہے تو یہ امر سکون دہ کہ مولانا کے اس ایکشن سے اسلام آباد کا امن تباہ نہیں ہوا جبکہ اس سے قبل انکے مدرسوں کے طلبہ و طالبات نے اسلام آباد پر قبضے کی بھی کوشش کر رکھی ہے۔
انہوں نے آرمی چیف کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہویئے لکھا کہ جس میں گھر کو ان آرڈر کرنے کی بات کی گئی ہے یقیناً گھر کے صوفوں کو آگ لگانے کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقعے نے ان پولیس اور فوجی جوانوں کی یاد تازہ کر دی ہے جو کہ جامعہ حفصہ کے طالبان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاسکی۔ آج تک اسلام آباد کے اس راز کا پردہ نہیں چاک ہوا۔