کوئلے کی توانائی کے ماحولیاتی اثرات, مقامی ہوا اور پانی کی آلودگی سے لے کر کاربن کے اخراج تک, نے اس منصوبے کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
شاہ جہاں مرزا جو کہ پاکستان پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ کے منیجگ ڈائریکٹر ہیں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ”ہم چینی کمپنی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ 31 دسمبر 2023 تک اپنی مالیاتی بندش کو مکمل کرے، اور جلد از جلد تعمیر شروع کرے تاکہ اسے 2025 تک مکمل کیا جا سکے۔” انہوں نے کہا کہ بجلی کی کمی گوادر کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان میں توانائی کا بحران
سیاسی عدم استحکام، کمزور توانائی کی حکمت عملیاں اور درآمد شدہ فوسل فیول پر انحصار کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو کئی دہائیوں سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ صوبہ بلوچستان کی اکثریت، جہاں گوادر کول پلانٹ تعمیر ہونے والا ہے، اس وقت بجلی سے محروم ہے۔
حالیہ مہینوں میں، ملک کے کئی دوسرے حصوں کو بھی بجلی کی طویل بندشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے صنعتوں اور معاشی سرگرمیوں کو خطرہ ہوا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد درآمدی قدرتی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے توانائی کی کمی اور بڑھ گئی ہے، جس نے پاکستان کی حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ طلب کو پورا کرنے کے لئے نئے حل تلاش کرے۔
پاکستان کے توانائی کے شعبے پر قدرتی ایندھن کا غلبہ ہے۔ ملک کے فنانس ڈویژن کے مطابق ، اپریل 2022 تک، گیس، تیل اور کوئلے سمیت، قدرتی ایندھن استعمال کرنے کی کل نصب شدہ پیداواری صلاحیت صرف 60 فیصد کے قریب ہے۔ جبکہ 2022 کے مالی سال میں پیدا ہونے والی بجلی کا صرف 3 فیصد غیر پن بجلی کے قابل تجدید ذرائع سے آیا۔ پاکستان کے نیشنلی ڈٹرمنڈ کنٹریبیوشن (NDC) یعنی قومی سطح پر طے شدہ شراکت کے مقا صد میں پیرس معاہدے کے تحت آب و ہوا کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے 2030 تک 60 فیصد قابل تجدید توانائی بشمول پن بجلی پیدا کرنا ضروری ہے۔NDCنے یہ بھی کہا: “2020 سے نئے کول پاور پلانٹس پر پابندی عائد ہے۔”
کیا چین بجلی پیدا کرنےکے لئے بیرون ملک کوئی نیا کوئلے کا پراجیکٹ لگائے گا؟
2021 میں، چین کے صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا کہ چین بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے بجلی کےنئے منصوبے نہیں بنائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک ترقی پذیر ممالک میں کم کاربن توانائی کی مزید حمایت کرے گا۔
اسلام آباد میں عوامی جمہوریہ چین کے سفارت خانے کے پولیٹیکل کونسلر باؤ ژونگ نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ چینی حکومت اپنے وعدے پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کوئلے سے چلنے والا پلانٹ کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے اور یہ 2016 سے سی پیک کے فریم ورک میں ہے۔ “ہم امید کرتے ہیں کہ گوادر پاور پلانٹ کی تعمیر جلد از جلد شروع ہو جائے گی تاکہ وہاں بجلی کی کمی کو دور کیا جا سکے۔”
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے باؤ کے تبصروں کی تائید کی۔ “یہ منصوبہ چینی صدر کے اعلان سے بہت پہلے 2017 میں منظور کیا گیا تھا۔”
اپریل 2022 میں، چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن (NDRC)، جو ملک کا اعلیٰ اقتصادی منصوبہ بندی اور انتظامی ادارہ ہے، نے 2021 کے وعدے کی تشریح جاری کی، جس میں تمام “نئی تعمیر” کے منصوبوں پر پابندی کی وضاحت کی گئی۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے سے زیر تعمیر پراجیکٹس کو “مستحکم اور احتیاط” سے آگے بڑھنا چاہیے۔ کچھ مبصرین نے مشورہ دیا کہ لفظوں کے چناو نے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے اور کوئلے کے متبادل جیسے گیس، شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر عمل کرنے کا دروازہ بھی کھلا چھوڑ دیا ہے۔
پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکوئٹیبل ڈیولپمنٹ (PRIED) سے تعلق رکھنے والے اظہر لاشاری کا خیال ہے کہ گوادر کول پاور پلانٹ کے لئے چین کی مسلسل حمایت اپریل 2022 کی NDRC کی تشریح کے خلاف ہے کیونکہ “پلانٹ پر کوئی سول کام شروع نہیں ہوا تھا۔”
لاشاری نے دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حمایت “نہ صرف [چین کے] بیرون ملک کوئلے کے پاور پلانٹس کی تعمیر نہ کرنے کے وعدے کی خلاف ورزی ہے، بلکہ اس نے گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچایا ہے”۔
چینی سفارت خانے کے باؤ نے کہا کہ اگرچہ گوادر پلانٹ کی تعمیر ابھی شروع نہیں ہوئی ہے، ’’پاور پلانٹ کی تعمیر کی تیاری تقریباً مکمل ہے اور اگر اس کی راہ میں رکاوٹیں آئیں تو یہ بدقسمتی ہوگی۔‘‘
مرزا کے مطابق، تعمیر شروع کرنے میں تاخیر کی وجہ “بلوچستان کی حکومت کی جانب سے زمین کے حصول اور ماحولیاتی منظوریوں کے ساتھ ساتھ قرض دہندگان اور چینی سرکاری امداد سے چلنے والی انشورنس کمپنی سائنوسر(Sinosure) کی منظوریوں کے مسائل تھے”۔ اگرچہ ٹیرف (وہ شرح جس پر چینی کمپنی بجلی فروخت کرے گی) کا تعین 2019 میں کیا گیا تھا، لیکن پلانٹ کے لئے زمین کا حصول 2020 تک نہیں ہوا تھا۔ چینی کمپنی اور GFZ کے درمیان بجلی کی خریداری کے معاہدے پر 2021 کے اوائل میں دستخط کئے گئے تھے۔
پاکستانی حکومت نے چینی شراکت داروں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کے اس منصوبے کو پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھر میں منتقل کیا جائے کیونکہ ضلع تھر لگنائٹ کوئلے کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ لہذا یہ کوششں اسی لئے کی گئی تاکہ ملکی کوئلہ استعمال کیا جا سکے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ تھر کے کوئلے کی کان کا بلاک نمبر دو سی پیک کا ایک منصوبہ ہے۔
باؤ نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ “پلانٹ کو تھر میں منتقل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے کوئلے کے ایک نئے منصوبے کے طور پر شامل کیا جائے اور چین نے کوئلے کے نئے منصوبوں کی حمایت نہ کرنے کا اصولی موقف اختیار کیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ چین بخوبی واقف ہے کہ کوئلے سے ماحولیات کے کیا مسائل ہوتے ہیں۔ “ہم نے ہر زاویے سے پلانٹ کی جانچ کی ہے، بشمول ماحولیاتی، اور متبادل انتخاب کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوئلہ واحد قابل عمل ایندھن ہے۔ ہم گوادر کی ترقی اور سرمایہ کاری میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے قابل ہونے کا واحد طریقہ اسے پائیدار طاقت دینا ہے۔”
گوادر میں شمسی توانائی اور کوئلے کا تقابل
اس بات پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کول پاور پلانٹ حکومت پاکستان کی طویل مدتی توانائی کی پالیسیوں میں کس طرح فٹ بیٹھتا ہے۔ 2020 میں، پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کلائمیٹ ایمبیشن سمٹ میں دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ “پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے پاس کوئلے سے پیدا ہونے والی مزید بجلی نہیں ہوگی۔”
اور یہ کہ سی پیک کے تحت منظور شدہ دو پاور پراجیکٹس جن میں درآمدی کوئلہ استعمال ہونا تھا، وہ دو پراجیکٹس مظفر گڑھ اور رحیم یار خان میں لگنے تھے، لیکن انکو ختم کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیسی کوئلے کےحوالے سے، پاکستان کوئلے کی لیکیفیکیشن (گھلائی یا پگھلائی) یا گیسیفیکیشن (گیس سازی) کے ذریعے توانائی پیداکرنے پر توجہ دے گا، تاکہ ہمیں توانائی پیدا کرنے کے لئے کوئلہ جلانے کی ضرورت نہ پڑے۔
پچھلے سال یہ رپورٹ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت چین کو گوادر میں کوئلے کے پلانٹ کے لئے فنڈز کی جگہ مساوی صلاحیت کے شمسی توانائی کے پلانٹس میں سرمایہ کاری کے لئے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس (IEEFA) میں توانائی کے مالیاتی تجزیہ کار حنیہ اساد نے کہا کہ یہ ایک مثبت قدم تھا۔ انہوں نے کہا کہ “اس اعلان پر واپس جانا 2020 میں پچھلی حکومت کی طرف سے درآمد شدہ کوئلے سے مزید بجلی پیدا نہ کرنے کے وعدے کی نفی ہے۔”
پاکستان کو حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق شدید موسمی واقعات کے تباہ کن اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے لاشاری نے کہا کہ چینی اور پاکستانی دونوں حکومتوں کو گوادر میں کول پاور پلانٹ کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے اپنےاس فیصلے پر “دوبارہ غور” کرنا چاہیے، اور اس کے بجائے “اسے ماحولیاتی طور پر صاف اور سبز قابل تجدید توانائی کے منصوبے سے تبدیل کریں۔”
سی پیک کے امور پر وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی خالد منصور اس سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "کم آلودگی پیدا کرنے والےایندھن کے ذرائع کے استعمال پر بحث کرنا آجکل کے سماجی رویوں کے مطابق کانوں کو بھلا لگتا ہے”، لیکن GFZ کے توسیع کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اس کے لئے بڑی مقدار میں بلاتعطل بجلی کی ضرورت ہوگی۔ منصور نے کہا ہے کہ یہ صرف گیس، تیل یا کوئلہ استعمال کرکے فراہم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ 300 میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ گوادر کے لئے بہت مدد گار ثابت ہوگا۔
وزیر احسن اقبال نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا: “ہمارے معاملے میں، مستحکم بیس لوڈ (برقی توانائی کے خرچ کی کم سے کم مستقل مقدار) صرف کوئلے سے ہی ممکن ہے، جو کہ سب سے سستا انتخاب بھی ہے۔”
مرزا بھی اس بات سے متفق تھے کہ شمسی توانائی کو گھروں اور دیگر چھوٹے منصوبوں کے لئے استعمال کیا جاسکتا جبکہ کوئلے کے پلانٹ کی تکمیل کے طور پر یہ بڑی صنعتوں کو بلا روک ٹوک بجلی فراہم نہیں کر سکتا.”
کوئلہ درآمد کرنے کی لاگت
پاکستان کے پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ کے شاہ جہاں مرزا نے دی تھرڈ پول سےاس بات کی تصدیق کی کہ گوادر پاور پلانٹ اعلیٰ معیار کا درآمدی کوئلہ استعمال کرے گا اور پاکستان کے صوبہ سندھ کے تھرپارکر کوئلے کی کانوں میں تیار ہونے والا لگنائٹ کوئلہ اس پراجیکٹ میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔
منصور نے کہا، “اگر ہم نے گوادر پاور پلانٹ میں تھر کا کوئلہ استعمال کیا ہوتا، تو نہ صرف صارفین کے لئے بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوتی بلکہ اس سے ہمارا درآمدی بل بھی کم ہو جاتا۔ لیکن ریلوے لائن کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس وقت لگنائٹ تھر کے کوئلے کی منتقلی ممکن نہیں ہے۔”
ماحولیاتی مشاورتی فرم ہیگلر بیلی پاکستان کے توانائی کے ماہر، واگر زکریا نے کہا، “گوادر میں کوئلے کے منصوبے کے بارے میں سوچ بچار کئی سال پہلے کی گئی تھی جب کوئلہ سستا تھا اور ملک میں درآمدی کوئلے پر دوسرے منصوبے لگائے جا رہے تھے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “کوئلے کی قیمتیں اتنی زیادہ ہونے کی وجہ سے اب معاشی طور پر یہ بہتر نہیں ہے۔”
زکریا حیران تھے کہ چین پاکستان کو بجلی بیچنے کے لئے کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ کیوں تعمیر کرنا چاہےگا جب کہ پاکستان ” غیر ملکی کرنسی کی موجودہ کمی اور پاور سیکٹر میں جمع ہونے والے قرضوں کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔” انہوں نے کہا: اگر میں چین ہوتا تو گوادر میں اپنا سرمایہ لگانے میں احتیاط کرتا۔”
اِساد کو خدشہ ہے کہ کوئلے کی درآمدات میں توسیع سے ان معاشی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا جن کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں اور یہ ایسے وقت میں آ رہا ہے جب پاکستان غیر ملکی زرمبادلہ کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ بالآخر، انہوں نے کہا، “بجلی کی منصوبہ بندی کو حکمران جماعت کی سیاسی خواہشات سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔”