بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہودیوں کی جانب سے راماللہ کے علاقے سنیجل میں ایک گھر کو اس وقت آتش زنی کا نشانہ بنایا گیا جب گھر کے مکین سو رہے تھے جس میں میاں بیوی اور ان کے چاربچےتھے۔ انتہا پسند یہودیوں نے رات کے وقت گھر کی کھڑکی توڑ کر آتشی مواد اندر پھینکا۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں گھر پر آتش زنی کے حملے کا الزام یہودی دہشت گرد عناصر پر عائد کیا ہے۔ واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا ہے۔ گھر کے مالک احمد اوشریح نے بتایا کہ وہ کھڑکی کے ٹوٹنے کی آواز سے بیدار ہوئے اور آگ کے شعلے پھیلنے سے پہلے اپنے چار بچوں اور بیوی کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔
فلسطین پر اسرائیلی یہودیوں کے مظالم کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ تاہم حال ہی میں اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالل اسموترچ کے فلسطین اور اس کے لوگوں سے نفرت کے اظہار کے بعد سے یہودیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق فرانس کے دورے کے دوران ایک موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر نے فلسطین اور اس کے لوگوں کے وجود کو ہی ماننے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی وزیر نے کہا کہ ’کیا فلسطین کی کوئی تاریخ یا ثقافت ہے؟ کوئی بھی نہیں ہے، فلسطینی عوام نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘۔
اسرائیلی وزیر نے رواں ماہ بھی فلسطین سے متعلق نفرت انگیز بیان دیا تھا۔ انہوں نے فلسطین کے ایک قصبے کو مٹانےکا مطالبہ کیا تھا۔
اسرائیلی وزیر کے بیان کے بعد سے اسرائیلی جارحیت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق فلسطین کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ اسرائیل کے وزیر کا بیان انتہا پسند، نسل پرست اور صیہونی نظریے کا حتمی ثبوت ہے اور یہ تشدد پر اکسانے کے مترادف ہے۔
24 مارچ کو اسرائیلی فورسیز کی بیجا سختیوں اور پابندیوں کے باوجود ماہ مبارک رمضان میں ہزاروں افراد نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے مسجدالاقصی پر وحشیانہ حملہ کر دیا۔
صیہونی فوج نے ان افراد کو بہانہ بنا کر غیر قانونی طور پر گرفتار کیا اور مسجد میں گھس کر مسجد کی بے حرمتی بھی کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے اپنے مظالم چھپانے کےلئے مسجد میں موجود افراد کے موبائل فون ضبط کر لئے۔
8 مارچ کو مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی آباد کاروں کی بہت بڑی تعداد نے اپنے مذہبی تہوار پوریم کے موقع پر دھاوا بولا اور مذہبی رسومات ادا کیں جب کہ اسرائیلی فوج نے جنین شہر میں کارروائی کرتے ہوئے 6 فلسطینیوں کو شہید اور 11 کو شدید زخمی کر دیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق انتہا پسند یہودی تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی آباد کاروں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ عید پوریم کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر وہاں مذہبی رسومات ادا کریں۔
7 مارچ کو یہودی آباد کاروں نے مغربی کنارے پر واقع نابلس شہر کے جنوب کے قصبے حوارہ کے رہائشیوں اور دکانوں پر حملہ کیا تھا جب کہ اسی علاقے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں اور گاڑی پر حملے کے نتیجے میں 10 فلسطینی زخمی ہوئے تھے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک فلسطینی مسلح شخص نے دواسرائیلیوں کو گولی مارکرہلاک کر دیا اوراس کے جواب میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینی قصبے میں ہنگامہ آرائی کی جس کے نتیجے میں املاک کو نقصان پہنچا اور ایک فلسطینی شہید ہوگیا تھا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران میں اسرائیلی افواج نے مغربی کنارے میں ہزاروں گرفتاریاں کی ہیں اور جنگجوؤں اورشہریوں سمیت 200 سے زیادہ فلسطینیوں کوشہید کردیا ہے جبکہ فلسطینیوں کے مختلف حملوں میں 40 سے زیادہ اسرائیلی اور تین یوکرینی شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں مشرقی یروشلم اور غزہ سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے وہ مقبوضہ زمینوں پر لاکھوں اسرائیلیوں کی رہائش کے لیے بستیاں تعمیر کر رہا ہے۔