بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، محمد برکت نامی نوجوان سے کہا گیا کہ وہ اپنی ٹوپی اتار دے اور ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگائے۔
محمد برکت نے کہا ہے کہ حملہ آوروں نے مجھ سے علاقے میں ٹوپی نہ پہننے کا کہا اور میں نے جب ان سے یہ کہا کہ میں مسجد سے آ رہا ہوں تو انہوں نے مجھ پر تشدد کیا اور نعرے ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ اور ’’جے شری رام‘‘ لگانے کے لیے کہا، میرے انکار پر مجھے زبردستی سور کا گوشت کھلانے کی دھمکی بھی دی۔
یہ واقعہ جاکو پورا گرو رام کے علاقے میں پیش آیا تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
رپورٹ کے مطابق، 25 سالہ محمد برکت رات کے وقت جامع مسجد سے نماز پڑھ کر اپنی دکان واپس لوٹ رہا تھا جب قریباً چھ حملہ آوروں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ محمد برکت کے مطابق، حملہ آوروں نے اس پر چھڑی سے تشدد بھی کیا۔
حملہ آوروں میں سے چار موٹرسائیکلوں پر سوار تھے اور دو پیدل تھے جنہوں نے مبینہ طور پر اس کی قمیص پھاڑی اور جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
زخمی نوجوان کو اس کے ایک عزیز نے ہسپتال پہنچایا جہاں انتظامیہ نے پولیس کو اس واقعہ کے بارے میں آگاہ کیا جس نے نفرت کو فروغ دینے، مجرمانہ دھمکیوں اور غیر قانونی مجمع جمع کرنے کے الزامات کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی اس نوعیت کے غیر قانونی اقدامات کو کسی طور پر برداشت نہیں کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے پولیس کو واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے نومنتخب ارکان کو ہدایت کی تھی کہ اسی ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں جو 1857 میں تھی۔ انہوں نے ایسے افراد کے ساتھ تعصب نہ برتنے کا بھی کہا تھا جنہوں نے ان کی جماعت کو ووٹ نہیں ڈالا۔