رمضان کے مہینے میں ایسی ویڈیو سامنے آنے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس معاملے پر تنقید کی جارہی ہے۔
لمز کے طلبہ کی طرف سے یہ بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ جن لوگوں کو لمز میں داخلہ نہیں ملا وہ آج ہم پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ کچھ صارفین داخلے نہ ملنے پر شکر بھی ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ایمان بچ گیا۔
ایک صارف عمران خان نے کہا ’’ جدید دور ایک جدید یونیورسٹی کی کہانی ، جہاں رنگوں کے دن کو ڈانس دن بنادیا جاتا ہے نہ جانے سالہا سال پڑھائی کیسے ہوتی ہوگی اور پڑھائی کے دنوں کو کیا سے کیا بنادیاجاتاہوگا
صحافی ارشاد بھٹی نے کہا ’ یہ لمز یونیورسٹی کا حال ہے‘‘
ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’’تو یونیورسٹی میں بھی ہر طرح کے لوگ ہوتے اگر کچھہ کر رہے ڈانس تو مطلب سارا لمز ہی خراب ہے سارے یونیورسٹی کے لوگ ہی خراب ہوتے‘‘
نجییب صافی نے لکھا’’ واہ۔۔۔۔۔۔ کاش سب یونیورسٹیوں میں ڈانس کلچر عام ہو جائے نفرت اور لڑائی جگڑوں سے خوشی منانا کئی بہتر ہے افسوس ہے آپ جیسے بھی دقیانوسی سوچ کے حامی ہیں۔ خوشی پر پابندیاں قبول نہیں۔
فہد محمود نامی سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ڈانس پارٹی نہیں ہے۔ یہ لمز ہے اور پتہ نہیں کیوں یہاں کے طلبہ رمضان کے مقدس مہینے میں اس فضول کام کا دفاع کر رہے ہیں۔
نادر مجبور لمز کی آزادی اور وہاں کے ماحول کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنہوں نے اس کی مخالف کی ان کے اندر نیب چئیرمین جیسا خود احتسابی نظام ہے۔ دنیا بھر میں پہلے نمبر پہ فحش ویڈیوز دیکھنے والی قوم دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں لیکن خود توقعات سے زیادہ برے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہماری آزادی سے چڑتے ہیں۔