بھٹو کی کوشش تھی کہ ہماری قومی ثقافتی تاریخ معروضی انداز میں مرتب کی جائے، اس ضمن میں سانحہ مشرقی پاکستان سقوط ڈھاکہ کے اسباب و عوامل پر مشتمل ایک معروضی تاریخ لکھوائی جائے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد کے کے عزیز کو برطرف کر دیا گیا۔ اس تحقیقی تاریخی مسودہ کو سرکار نے ضبط کر لیا۔
پروفیسر فتح محمد ملک کے بقول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود قومی ادارہ برائے ثقافتی و تاریخی کمیشن کے سربراہ کے کے عزیز اور نوجوان محققین کو ہر ہفتے وقت دیتے اور اس علمی پراجیکٹ کی پیش رفت سے آگاہ رہتے۔ رسول بخش رئیس نے آج دنیا میں مطبوعہ کالم میں ذکر کیا ہے کہ ڈاکٹر عزیز نے 1600 صفحات پر مشتمل یہ کتاب لکھی۔ بھٹو نے انہیں اختصار یا ایجاز سے کام لینے کو کہا پھر اس کی ضخامت تقریباً 1100 صفحات ہوئی، 8 کاپیاں بنوائی گئیں۔ سات بھٹو صاحب کو پیش ہوئیں، ایک ڈاکٹر عزیز کے پاس رہی، پھر ضیا الحق نے تختہ الٹ دیا اور ایسے ادارے بھی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور سے لے کر آج تک اس ادارے نے کون سا علمی تحقیقاتی کام کیا معلوم نہ ہوسکا۔
(ایک گم شدہ کتاب رسول بخش رئیس 27 مئی دنیا)