ججز آڈیو لیکس کیس، انکوائری کمیشن نے مزید کارروائی روک دی

07:40 AM, 27 May, 2023

حسن نقوی
سپریم کورٹ کے سینئرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی کارروائی روک دی اور کہا کہ ہم باضابطہ دوبارہ آگاہ کئے جانے تک کارروائی روک رہے ہیں۔ جب تک آفیشلی بتایا نہیں جاتا یا نوٹیفائی نہیں ہوتا میٹنگ نہیں کررہے۔

مبینہ آڈیو لیکس کے معاملے پر قائم جوڈیشل کمیشن کا دوسرا اجلاس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا۔ کمیشن کے دیگر ممبران میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

اجلاس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان پیش ہوئے۔

اجلاس کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب میرا خیال ہے کہ کوئی عدالتی حکم آیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کمیشن کو کام سے روکنے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکمنامے کی کاپی طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کے پاس عدالتی حکم کی کاپی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی فراہم کی اور گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ بھی کل سپریم کورٹ میں موجود تھے؟ اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا۔ جس پر جسٹس فائز نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے ٹیلی فون پر عدالت پیش ہونے کا کہا گیا تھا ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جب انکوائری کمیشن کو نوٹس ہی جاری نہیں ہوا تو کارروائی سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ کم از کم ہمیں اس عدالتی کارروائی کے لیے نوٹس ہی جاری کردیتے۔ سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں۔ کمیشن کو کسی بھی درخواستگزارا نے نوٹس نہیں بھیجا۔ سپریم کورٹ کے رولز پر عملدرآمد لازم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہا کہ نوٹس کے حوالے سے بیان حلفی بھی عدالت میں دیا جاتا ہے۔ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا ۔باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا۔ نہ عابد زبیری آئے نہ ان کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی۔ پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے۔ کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا۔ باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ آپ نےکل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے۔ ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی ، نہ ہم وہ کچھ کر رہے تھے۔ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے عدالت کو آگاہ نہیں کیا کہ 209 کی کارروائی کمیشن نہیں کر رہا ؟ عدالت کو کل ہمارے حکم کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کل کے تحریری حکمنامے میں میرے کیس کا ذکر کیا۔ میرے کیس کے حقائق یکسر مختلف تھے۔ میری اہلیہ نے جائدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا تھا۔ میری اہلیہ کا کیس یہ تھا جو شخص ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑا ہے۔ اسے کسی نے کھڑا کیا ہے۔ یہ مناسب بات ہے کم از کم جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ پورا تو پڑھنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہیے۔ زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہیے۔ ایک گواہ خواجہ طارق رحیم نے ہمیں ای میل کی۔ انہوں نے ای میل میں لکھا جب آپ خواتین کے بیانات ریکارڈ کرنے لاہور جائیں گے میں وہیں آجاؤں گا۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا طبی مسائل کے سبب اسلام آباد میں پیش نہیں ہو سکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہا کہ حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیا اس لیے ہم بیٹھے۔ ججز کا حلف پڑھیں، ہم آئین و قانون کے تابع ہیں۔ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا۔ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔ آڈیوز کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں۔

اس موقع پر کارروائی روکتے ہوئے سربراہ آڈیو لیکس کمیشن نے کہا کہ ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کررہے۔ گواہان سے معذرت خواہ ہوں ہم کارروائی آگے نہیں چلا سکتے۔ اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں۔ سپریم کورٹ کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے اس لئے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج کی کارروائی کا تحریری حکمنامہ جاری کریں گے جس کے بعد آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کیخلاف عمران خان سمیت دیگر کی درخواستوں پر حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کو مزید کام سے روک دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے 31 مئی کو اگلی سماعت کے لیے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔

جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پرمختصر حکمنامہ جاری کر دیا گیا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی مرضی کے بغیر سپریم کورٹ کے کسی جج کو کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔جسٹس قاضی فائز سمیت جوڈیشل کمیشن میں شامل دیگر دو ممبران پر بھی ایک ہی اصول لاگو ہوگا۔ جوڈیشل کمیشن میں شامل دیگر دو ممبران ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز ہیں۔  حکم نامے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی کسی کمیشن میں شمولیت بھی چیف جسٹس پاکستان سے مشروط ہے۔ حکومت کی جانب سے قائم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل مشکوک ہے۔

 
مزیدخبریں