کیا پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر سچ میں کوئی دباؤ نہیں؟

11:58 AM, 27 May, 2023

عظیم بٹ
یوں تو میں مکافاتِ عمل پر یقین رکھتا ہوں۔ خدا نے سزا اور جزا کیلئے صرف آخرت کا دن متعین نہیں کیا بلکہ جو بویا ہے وہ دنیا میں بھی کاٹنا پڑتا ہے۔ آج کل نوجوانوں میں مقبول اسلامی سکالر انجینیئر محمد علی مرزا ایک جملہ کہتے ہیں؛ 'یہ دنیا بقدر ایفرٹ ہے'۔ یہ بات موجودہ دور پر بالکل درست بیٹھتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی ماحول میں جو بے چینی اس وقت پائی جا رہی ہے وہ نئی نہیں ہے۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے افراد سیاسی کارکنان اور تجزیہ کار بن بیٹھے ہیں یا ہم پر مسلط کر دیے گئے ہیں جن کا سیاسی شعور شروع ہی 2016 سے ہوا ہے۔ نا وہ ماضی جانتے ہیں اور نا ہی ماضی میں رونما ہونے والی تلخ حقیقتوں سے آشنا ہیں۔ انسانی حقوق کے نام پر من پسند افراد کیلئے کیا جانے والا ماتم انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس سے کئی گنا زیادہ انسانی حقوق کی پامالی ہم ماضی کے ادوار میں دیکھ چکے ہیں۔

بات صرف آمروں کے ادوار تک محدود نہیں ہے بلکہ نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی یہ کھیل کھیلے جا چکے ہیں۔ پاکستان کی سب سے پہلی اور صحیح معنوں میں جمہوری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ کو اگر پڑھا جائے تو معلوم ہو گا کہ کس طرح ایک پیپلز پارٹی میں سے چھ مختلف پیپلز پارٹیاں بنائی گئیں، کس طرح ملک کے مقبول وزرائے اعظم کو کبھی جعلی مقدمات میں پھانسی پر چڑھایا گیا تو کبھی تا حیات نااہل کیا گیا، کس طرح ایم کیو ایم کے چار حصے کئے گئے، کس طرح سے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کو سکھر کی جیلوں میں رکھا گیا، کس طرح جاوید ہاشمی کو ٹارچر کیا گیا، کس طرح رانا ثناء اللہ پر منشیات کا جعلی کیس ڈالا گیا، کس طرح حنیف عباسی کو احاطہ عدالت سے گھسیٹا گیا، کس طرح فریال تالپور کو ہسپتال سے حراست میں لیا گیا، کس طرح مریم نواز کے کمرے کا دروازا توڑا گیا، کس طرح خواجہ سعد رفیق پر ماضی میں ٹارچر کیا گیا اور حال ہی میں انہیں سالوں تک جیل میں رکھا گیا، کس طرح ماضی میں بلوچ سرداروں کو دھوکہ دہی سے قتل کیا گیا، کس طرح اے این پی کو ٹریٹ کیا گیا، کیسے کیمونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی، کیسے تحریک لبیک کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور مرحوم علامہ خادم حسین رضوی کو مسجد کا تقدس پامال کر کے ان کی ویل چیئر سے گھسیٹا گیا اور گرفتار کیا گیا مگر ردعمل میں ان میں سے کسی نے بھی سرکاری اور عسکری تنصیبات پر حملہ نہیں کیا۔ کسی نے امریکہ کو کال کر کے نہیں کہا کہ نوٹس لیں اور ہمیں بچائیں۔ کسی نے نہیں کہا کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہماری مدد کے لئے مداخلت کریں۔ مگر افسوس کہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے جعل سازوں نے اسلامی ٹچ والے انقلاب کا نام لے کر اپنے ہی وطن کی مٹی سے دشمنی شروع کر دی۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس تمام تمہید کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ اس وقت تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ حق بجانب ہے۔ یقیناً یہ جمہوری رویہ نہیں ہے، یقیناً ایم پی او کا قانون اندرونی طور پر ہی بہت سارے خدشات سے بھرپور ہے اور یقیناً زیر حراست ٹارچر اور دباؤ کی مذمت ہونی چاہئیے۔ اب تک 30 سے زائد قومی و علاقائی رہنما تحریک انصاف کو خیرباد کہہ چکے ہیں جن میں سے تمام نے اپنے سکرپٹ میں ایک سطر لفظ بہ لفظ دہرائی ہے کہ 'ہم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے' حالانکہ دباؤ ہونے کی یہی نشانی کافی ہے کہ آپ کو وضاحت دینی پڑے کہ آپ پر دباؤ ہے یا نہیں۔ دوسری بات جو یکساں نظر آ رہی ہے وہ اکثریت کا مدعا ان کی فیملی، بچے اور خاندان کی سکیورٹی ہے جس بنا پر وہ اس حد تک دباؤ کے شکار ہیں۔ یقیناً یہ عمل قابل مذمت ہے۔

کسی بھی جماعت کے ساتھ یہ رویہ صرف اس جماعت کو نہیں بلکہ ملک میں جمہوری نظام کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ فی الوقت پی ڈی ایم سمیت دیگر لوگوں کی نظر میں یہ مکافات عمل ہے اور یوں تحریک انصاف کو ختم کر دینا معمولی بات ہے جس سے فرق نہیں پڑے گا مگر تطہیر کے اس عمل کے نتائج زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔ ملک میں سیاسی لڑائی کو سیاست تک محدود رہنا چاہئیے۔ اگر یہ لڑائی ذاتی انا کی حد تک پہنچ جائے تو اس کا نقصان سیاست اور ملکی نظام دونوں کو ہوتا ہے اور فائدہ ان اشخاص کو ہوتا ہے جو ملک میں جمہوری نظام کے بجائے بادشاہت اور آمریت کے حامی ہوتے ہیں۔

آج تحریک انصاف کو جب درجنوں رہنما چھوڑے چلے جا رہے ہیں تو شکوہ کیا جا رہا ہے جبکہ 2018 میں جب 21، 21 رہنما اکٹھے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوتے تھے تو نعرہ لگایا جاتا تھا کہ آج خان نے ن لیگ کی اتنی وکٹیں گرا دیں۔ اب وہی وکٹیں اپنی پرانی گراؤنڈ میں آنے کو بے تاب ہیں اور جو امپائر ماضی میں خان صاحب کے ساتھ مل کر یہ کھیل کھیل رہا تھا آج بھی وہی اس کا سرکردہ ہے۔ وہی جہانگیر ترین کا جہاز ہے اور وہی جہانگیر ترین گروپ ہے جو نئی جماعت کی صورت گری کر رہا ہے۔ یہ کھیل نیا نہیں، وہی پرانا ہے جو خان صاحب کھیل رہے تھے۔ فرق محض اتنا ہے کہ تب خان صاحب لڈو کے سانپ بنے سب کو ڈس رہے تھے اور آج خود ڈسے جا رہے ہیں۔

جو غلطی خان صاحب کر چکے اس کا خمیازہ تو خیر وہ بھگتیں گے ہی اور بھگت ہی رہے ہیں کہ آج وہ روز صبح دوپہر شام زمان پارک کی چھت پر چڑھ کر آوازیں لگاتے ہیں کہ مجھ سے بات کر لو، کوئی تو سن لو اور یہی خان صاحب ماضی میں کسی کو سلام کہنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ مگر موجودہ حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کیونکہ مکافات عمل کسی ایک کے ساتھ نہیں، ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر خان اپنا کل کا بویا کاٹ رہا ہے تو آنے والے وقت میں آپ کو بھی اپنا بویا کاٹنا پڑ سکتا ہے۔

اس ملک کی بقا اسی میں ہے کہ میثاق جمہوریت کی تجدید کی جائے اور ملک کی تمام جماعتیں ماضی کے 75 سالوں پر کاٹا لگا کر بغل گیر ہوتے ہوئے آگے بڑھیں اور قوم و ملت کے بارے میں سوچیں۔
مزیدخبریں