ماضی میں جنرلز توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، اب طے کر لیتے ہیں، چیف جسٹس

06:55 AM, 27 Nov, 2019

نیا دور
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ بہت سارے قواعد خاموش ہیں اور کچھ روایتیں بن گئی ہیں، ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کر لیتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ جیورست فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

آرمی چیف کی جانب سے سابق وزیر قانون فروغ نسیم ان کا کیس لڑنے کے لیے عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور خان حکومتی مؤقف بیان کرنے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔



سماعت کے آغاز سے پہلے بیرسٹر فروغ نسیم نے کمرہ عدالت میں وکالت نامہ جمع کروایا۔

روسٹرم پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریاض راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ تشریف نہیں لائے، ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی، جس پر ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہوگئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔

چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ از خود نوٹس نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کو سمجھ نہیں آئی، اس معاملے پر ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، ہم کیس ریاض راہی کی درخواست پر ہی سن رہے ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس  آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کل ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا، اسی لیے آپ نے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں، میں نے کل آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا، عدالت نے کہا صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ سے متعلق نقطہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔

اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں، آرٹیکل 243 کے تحت ہی صدر، وزیراعظم کے مشورے پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے، کیا تعیناتی کی مدت کا بھی ذکر ہے، کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف بنایا جاسکتا ہے۔



دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا انتہائی اہم معاملہ ہے، ماضی میں 5 یا 6 جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں، مستقبل میں ایسے مسائل پیدا نہ ہو اس لیے اس معاملے کو تسلی سے دیکھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے مگر اس میں آئین خاموش ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے۔ اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ 5، 6 جنرل خود کو توسیع دیتے رہے، 10، 10 سال تک توسیع لی گئی لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں، تاہم آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ابھی تک ہمیں یہ سکیم ہی سمجھ نہیں آئی کہ کن رولز کے تحت توسیع ہوئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہیں بحث کب تک چلتی ہے، ابھی تک تو ہم کیس سمجھ ہی رہے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک بجے تک ملتوی کردی۔



خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ 19 اگست کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کر دی گئی تھی۔ وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا۔ تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جا رہی تھی۔

خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔
مزیدخبریں