طلبہ کا مطالبہ ہے کہ طلبہ یونین کو فوری بحال کیا جائے، تعلیمی اداروں کی نجکاری بند کی جائے، فیسوں میں اضافہ واپس لیا جائے، ایچ ای سی کی بجٹ کٹوتیوں کو فوراً ختم کیا جائے اور کل بجٹ کا کم از کم 5 فیصد بجٹ تعلیم کیلئے مختص کیا جائے۔ طلبہ کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ کیمپس میں خواتین کی جنسی حراسانی کیخلاف قانون سازی کی جائے اور حراسمنٹ کمیٹیوں میں طالبات کو شامل کیا جائے علاوہ ازیں کرونا کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں انٹر نیٹ نہ ہونے کے سبب آن لائن کلاسز کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ڈیجیٹل ڈیوائیڈ کو ختم کیا جائے اور تمام پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
لاہور میں یہ مظاہرہ پچھلے سال طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ لیکر نکلنے والی تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے زیر اہتمام منعقد ہورہا ہے۔ یہ مظاہرہ 2 بجے چئیرنگ کراس کے باہر کیا جائے گا۔ اسی طرح اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے اور ساتھ ہی ساتھ کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں طلبہ اپنے حقوق کیلئے مظاہرے کریں گے۔
یاد رہے کہ طلبہ نے پچھلے سال کی طرز پر طلبہ یکجہتی مارچ کا اعلان کر رکھا تھا مگر کرونا کی حالیہ لہر کے پیش نظر انہوں نے مارچ کو احتجاج میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی و پروگریسو سٹوڈنٹ کولیکٹو کے رہنماوں نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پڑھے لکھے شہری ہیں اس لئے مظاہروں کی تمام جگہوں پر کرونا ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔ انہوں نے مظاہرین سے بھی اپیل کی کہ وہ ماسک پہنیں، سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے سے ملنے سے اجتناب کریں۔