تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے 6 دسمبر کو اجلاس طلب کرلیا۔ میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ قائمہ کمیٹی نے 2013ء سے اب تک میڈیا ہاؤسز کو وفاقی، پنجاب اور خیبرپختونخواہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری اشتہارات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے حکومت کے دور میں اشتہارات کی تفصیل فراہم کی جائے۔
قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم اورسابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کو بھی طلب کیا۔ آڈیو لیک کے معاملے پر صحافی احمد نورانی، ایڈیٹر انچیف سما ٹی وی اور ثاقب نثار کو پیش ہو کر مؤقف دینے کی ہدایت کی گئی۔
جبکہ صحافی ابصارعالم اور اسد طورپرتشدد کا معاملہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے جبکہ صحافی حامد میراورعاصمہ شیرازی کےخلاف مقدمات بھی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
پی ٹی وی اینکر ڈاکٹر نعمان نیاز کی شعیب اختر سے بدتمیزی کا معاملہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔واضح رہے کہ چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار سے منسوب ایک آڈیو کلپ سامنے آئی جس میں وہ مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی جگہ بنانے کے لیے نواز شریف کو سزا دینی ہوگی۔ مبینہ آڈیو ٹیپ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی جس میں مبینہ طور پر چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار نے کہا کہ عمران خان کی جگہ بنانے کیلئے نواز شریف کو سزا دینی ہو گی، مریم نواز کو بھی سزا دینی ہو گی۔
مبینہ آڈیو کلپ میں وہ مبینہ طور پر تسلیم کر رہے ہیں کہ مریم نواز کو بھی سزا دینی ہو گی اگرچہ مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی مبینہ آڈیو کلپ کو ن لیگ کے رہنماؤں نے اپنی جیت اورعدل کے لیے امتحان قرار دیا ہے۔ جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سے منسوب مبینہ آڈیو کو جعلی قرار دے دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا مبینہ آڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے ابھی یہ آڈیو سنی ہے، یہ آڈیو جعلی ہے جسے مجھ سے منسوب کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی چیزیں بناکرلائی جارہی ہیں،یہ آواز میری نہیں ہے۔ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے کہا کہ یہ فیبریکیٹڈ آڈیو مجھ سے منسوب کی گئی ہے۔ اس طرح کی چیزیں بنا کر لائی جارہی ہیں۔