https://twitter.com/syedkousarkazmi/status/1464385722350292997
برطانوی خاتون جج نکولس ڈیوئیس نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے پر کوئی کریمنل مقدمہ نہیں ہے تاہم وہ ان پر لگے کرپشن، جعل سازی اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات سے سہمت ہیں۔ اس لیے برطانیہ سے ان کا اخراج ان کے طرز عمل، کردار کی وجہ سے عوامی بھلائی کے لیے سازگار ہے۔
برطانوی امیگیریشن حکام نے کرپشن چارجز کی بنا پر ملک ریاض کا ویزہ کینسل کر دیا تھا، جس کی بنا پر انہوں نے اپیل دائر کی تھی تاہم برطانوی عدالت نے کہا کہ وہ ان پر لگائے گئے کرپشن اور جعل سازی کے الزامات سے سہمت ہیں اس لیے ملک ریاض سمیت ان کے تمام خاندان کا 10 سالہ ملٹی انٹری ویزا منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
https://twitter.com/iamthedrifter/status/1464379049850150924
صحافی کوثر کاظمی کے مطابق شہزاد اکبر نے برطانیہ میں جاکر ملک ریاض کی پراپرٹی کے معاملے کو حل کیا کہ وہ پیسا برطانیہ میں ہی منجمد نہ ہوجائے بلکہ اس کو پاکستان میں لایا جائے۔ اس میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصہ شہزاد اکبر دونوں نے ملک ریاض کی مدد کی۔ صحافی کوثر کاظمی کے مطابق شہزاد اکبر نے برطانوی کرائم ایجنسی کی واپس کی گئی رقم ملک ریاض کو واپس کر دی تھی۔
https://twitter.com/SyedKousarKazmi/status/1464392190600388608
خیال رہے کہ ملک ریاض پر برطانیہ میں سخت کرپشن چارجز کا سامنا تھا جس کے بعد نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا۔ ملک ریاض نے حسن نواز سے ہائڑ پارک پراپرٹی خریدی تھی۔ حسن نواز کو کرائم ایجنسی سے کلین چٹ مل گئی تھی کیونکہ ان کے پاس تمام منی ٹریل کی دستاویزات تھیں مگر ملک ریاض کے پاس نہیں تھیں۔
https://twitter.com/SyedKousarKazmi/status/1464392192751976454
کرپشن چارجز کی بنا پر ملک ریاض کا ویزہ کینسل کر دیا گیا تھا جس کی بنا پر انہوں نے اپیل کی تھی لیکن برطانوی امیگریشن نے ان سمیت ان کے تمام خاندان کا ویزہ بھی کینسل کر دیا۔
اس کیس کے پس منظر کی بات کی جائے تو جولائی 2020 ،میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کے دوران برطانیہ میں ضبط 190 ملین پاؤنڈ پاکستان کو واپس کیے تھے۔ برطانوی حکام نے بتایا تھاکہ اسی طرح برطانیہ میں لاکھوں پاونڈز گزشتہ سال میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کو واپس کیے گئے۔
یہ رقم بین الاقوامی بدعنوانی اور رشوت ستانی کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ نیشنل کرائم ایجنسی کے بین الاقوامی بدعنوانی یونٹ کے ذریعے اس سال کے دوران پہلے سے کہیں زیادہ افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی جو ملک میں بڑے اوورسیز ترقیاتی منصوبوں میں مجرمانہ نقد رقم کی فراہمی سے منسلک ہیں۔
کروڑوں پاؤنڈ سے بنائی گئی ملک ریاض کی جائیدادوں کو برطانیہ میں بھی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ برطانوی حکومت نے تحقیقات کے دوران ناجائز آمدن کے ثبوت ملنے کے بعد ملک ریاض کی اکاؤنٹس اور جائیداد منجمد کر دیے تھے۔
اس سے قبل دسمبر 2019 میں نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض سے متعلق سول تحقیقات کے بعد 190 ملین ڈالر کی سول سیٹلمنٹ پر اتفاق کیا تھا۔ ملک ریاض کا شمار پاکستان میں نجی شعبے کے سب سے بڑے کارپوریٹ درجنوں میں ہوتا ہے ۔خیال رہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے ملک ریاض کی 190 ملین پاؤنڈز کی پراپرٹیز منجمد کرنے کے حکم کے بعد کاروباری شخصیت ملک ریاض کا مؤقف بھی سامنے آیا تھا۔ ملک ریاض نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ برطانیہ میں قانونی اور ڈکلئیرڈ جائیداد بیچی ہے۔جائیداد کی فروخت بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں رقم ادا کرنے کے لیے کی گئی۔