سینئر صحافی شاہد میتلا نے اپنے یوٹیوب چینل پر وی-لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ آئندہ آنے والےدنوں میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی متعدد کرپشن کیسز میں نیب کی جانب سے طلب کیا جائے گا۔
سینئر صحافی نے بحریہ ٹاؤن کو 50 ارب منتقلی کے کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے نامور بزنس ٹائیکون ملک ریاض کو نیب نے طلب کر لیا ہے کیونکہ انہوں نے 190 ملین پاونڈ کی جائیداد برطانیہ میں خرید رکھی ہے۔ جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض سے اس رقم کی 'منی ٹریل' مانگی جو وہ فراہم نہیں کر سکے ۔ اس کے بعد نیشنل کرائم ایجنسی نے عدالت سے رجوع کیا ۔ بعد ازاں اس معاملے کی عدالت کے باہر ہی سیٹلمنٹ ہو گئی تھی جس کے مطابق کرائم ایجنسی نے رقم براہ راست پاکستان حکومت کو منتقل کر دی۔ یہ پی ٹی آئی دور کا وہی اسکینڈل ہے جس میں سیٹلمنٹ کیلئے ہیروں کی باز گشت بھی سنائی دی۔ اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے۔ کیس کے مرکزی ملزم سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے فنڈز کی بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹ میں منتقلی کی منظوری کابینہ سے کرائی تھی۔ شہزاد اکبر کے ملک ریاض کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور انہوں نے ملک ریاض سے'کک بیکس' اور کمشن کے بدلے کابینہ سےاس کی غلط طریقے سے منظوری لی۔ انہوں نے منظوری کے لئے موقف اختیار کیا کہ 190 ملین پاونڈ جو کہ 50 ارب روپے بنتے ہیں، ملک ریاض کو دے دیتے ہیں اور جو ملک ریاض نے کراچی بحریہ کے کیس کے نتیجے میں 460 ارب روپے دینے تھے اس مد میں ان پیسوں کی ادائیگی کر سکیں۔ لیکن وہ رقم پاکستانی عوام کی تھی جو کہ ملک ریاض کو دے دی گئی اور عمران خان بھی اس کرپشن کا حصہ بن گئے اور وہ رقم قومی خزانے میں جمع کروائے جانے کے بجائے سُپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت اقساط میں 460 بلین روپے کی ادائیگی کررہے ہیں۔
نیب کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی ملکیت 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کو ہی واپس مل گئے۔
صحافی نے مزید کہا کہ جس نیب نے اس کی تحقیقات شروع کیں۔ سربراہ قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بھی انہی کے لائے ہوئے تھے۔ ملک ریاض نے نواز شریف سے میٹنگ کی تھی اور ان کو جاوید اقبال کی تقرری کے لئے رضامند کیا تھا۔ اس ملک میں 2004 سے 2022 تک جتنے بھی چئرمین نیب مقرر ہوئے تمام ملک ریاض کے تجویز کردہ اشخاص تھے۔ نیب کی جانب سے ملک ریاض کو یکم دسمبر دن 11 بجے نیب راولپنڈی کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ برطانیہ سے پاکستان رقم کی منتقلی کا ریکارڈ اور تحصیل سوہاوہ میں 458کنال زمین القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کو عطیہ کرنے کے معاہدے کا ریکارڈ بھی ساتھ لائیں اور یہ بھی کہا ہے کہ آپ وجہ بھی بتائیں کہ یہ پراپرٹی کیوں منتقل کی ہے اور خصوصی طور پر ایسے ہی وقت میں کی جب کرپشن کا آیا ہوا پیسہ زبانی کلامی معاہدے کے تحت شہزاد اکبر نے آپ کو ٹرانسفر کروایا۔ اس کے علاوہ بھی اگر کوئی زمینی اراضی القادر ٹرسٹ کو منتقل کی ہے تو اس کی تفصیلات بھی فراہم کریں۔ القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔ اس کے ساتھ فرح گوگی اور ایک اور شخص بھی ٹرسٹی ہیں۔ پہلے اس ادارے کے ٹرسٹی سید زوالفقار بخاری المعروف زلفی بخاری اور بابر اعوان ٹرسٹی تھے تاہم ان دونوں کو ہٹا کر فرح گوگی کو ٹرسٹی بنایا گیا۔
نیب کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہماری اطلاع کے مطابق اس معاملے کے تمام شواہد آپ کے پاس موجود ہیں اور اگر آپ تمام ریکارڈز کے ساتھ پیش نہیں ہوں گے تو آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائےگی۔ نیب شہزاد اکبر اور علی ریاض کو بھی نوٹس بھیج چکا لیکن وہ تاحال شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ فیصل واوڈا پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں جبکہ نیب ذرائع کا کہنا ہے عمران خان کی بھی جلد طلبی متوقع ہے۔ یعنی آئندہ کچھ روز میں بشریٰ بی بی، عمران خان اور فرح گوگی کو بھی نیب کی جانب سے طلب کیا جائے گا۔ بظاہر یہ 'کانفلکٹ آف انٹرسٹ' کا کیس ہے 50 ارب ملک ریاض کو دئیے گئے جس کے بدلے میں ٹرسٹ کے نام پر 5 ، 6 ارب روپے کی اراضی بشریٰ بی بی اور عمران خان کو دے دی گئی۔
صحافی نے سینیٹر اعظم سواتی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بے شک جو کچھ بھی چند روز قبل ان کے ساتھ کیا گیا۔ جو ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ان پر تشدد ہوا اور برہنہ کر کے مارا گیا۔ جو ان کی ویڈیو بنائی گئی۔ ایک بزرگ آدمی کی عمر کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا۔ ایسا کچھ بھی ان کے ساتھ نہیں ہونا چاہے تھا ۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف انتہائی نازیبا زبان کا استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے جنرل فیصل اور بریگیڈئر فہیم کے حوالے سے کہا ہے کہ میں ان کے پیچھے جاوں گا اور ہر عدالت میں اور اخلاقی فورم پر ان کو چیلنج کروں گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف ایک ٹویٹ کو بنیاد بنا کر میرے ساتھ یہ سنگین کارروائی گی گئی۔ اس کے باوجود اعظم سواتی کو چاہیے کہ بات کرتے ہوئے مناسب الفاظ کا استعمال کریں کیونکہ وہ ایک سینیٹر ہیں ایسے منصب پر فائز ہو کر انہیں محتاط گفتگو کرنی چاہیے۔