تحریک انصاف اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس میں سیاسی خودکش بمباروں کی اکژیت کے ساتھ سیاسی نابالغوں کی بھی کمی نہیں، مگر اس مرتبہ 'حقیقی آزادی' کا قافلہ جب 26 نومبر کی رات ڈی چوک سے ٹکرایا تو کارکنوں میں ایک جوش و ولولہ تھا کہ ڈی چوک جائیں گے اور عمران خان کو رہا کرائیں گے مگر پھر ہوا کا رخ بدلا اور رات کے آخری پہر 'گرینڈ آپریشن' کے نام پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے سیدھی گولیاں چلائی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے لاشیں گریں اور مظاہرین منتشر ہونا شروع ہو گئے، اور پھر چند ہی لمحوں میں رینجرز نے ڈی چوک کو مظاہرین سے 'خالی' کروا لیا۔ حکومتی وزرا اس 'آپریشن' کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں جس کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف کے 8 کارکنوں کی ہلاکت ہو چکی ہے اور درجنوں زخمی اسلام آباد کے دو سرکاری ہسپتالوں (پولی کلینک/پمز) میں زیر علاج ہیں۔
ٹیلی وژن پر خبریں چلوائی گئیں کہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ علی امین 'فرار' ہو گئے اور وزیر داخلہ نے علی الصبح ریڈ زون کی صفائی کے احکامات بھی جاری کر دیے۔ کیا ایک ایسی جگہ پر جہاں انسانوں پر گولیاں چلائی گئی ہوں اس جگہ کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے 'صاف' کروایا جا سکتا ہے؟ یہ بالکل اسی طرح ہے جب 27 دسمبر کی شام محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد فوراً ہی بم دھماکے کی جگہ لیاقت باغ کو اس وقت کی انتظامیہ نے پانی سے صاف کروا دیا تھا! کیا ہمارا نظام انصاف اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے؟ اس میں طاقتوروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی طاقت ختم ہو چکی ہے؟ اس کی تازہ مثال سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کا ڈی چوک میں ہوئی ہلاکتوں پر سوموٹو نوٹس نہ لینا ہے!
ڈی چوک پر کھیلی جانے والی خون کی ہولی میں معصوم انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے، اس قتل کا خون کس کے سر تلاش کیا جائے گا، کیا پھر اس ناحق خون پر سیاست کی جائے گی؟ تحریک انصاف کی قیادت جسے پہلے ہی ریاستی جبر کا سامنا ہے ممکن ہے آنے والے دنوں میں اس کے گرد شکنجہ مزید سخت کر دیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست عمران خان کے ساتھ معاملات حل کرنے کیلئے لچک کا مظاہرہ کرے، کیونکہ پاکستان مزید خون خرابے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آخر کب تک ریاستی وسائل اپنے ہی ہم وطنوں کی آواز دبانے پر لگائے جائیں گے، جو اور کچھ نہیں صرف وہ حقوق مانگ رہے ہیں جو انہیں آئین نے دیے ہیں۔
تحریک انصاف گذشتہ ڈھائی سال سے سڑکوں پر ہے، 26 مئی 2022 سے لے کر اب تک سیاسی احتجاج کے کئی ادوار آئے، اس دوران 9 مئی بھی ہوا (بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ 9 مئی 8 فروری کے مینڈیٹ میں گم ہو گیا ہے)، مرکزی قیادت جیلوں میں اور کچھ روپوش ہیں، جبکہ سینکڑوں ورکرز جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں اور اب 27 نومبر کا سانحہ جس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی ہلاکت ہوئی اور درجنوں زخمی ہیں، کیا اب تحریک انصاف کو احتجاجی سیاست کو خیر باد کہہ کر سنجیدہ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں؟ کیا وہ وقت نہیں آ گیا کہ اب ریاست کو تحریک انصاف کیلئے سیاسی گنجائش نکالنی چاہیے؟
دوسری طرف اس ساری صورت حال میں عمران خان آخر کیوں احتجاج کی پالیسی جاری رکھنے پر مجبور ہیں؟ وہ کون سے خدشات ہیں جو عمران خان کو احتجاج میں شدت لانے پر مجبور کر رہے ہیں، کہیں جنرل فیض کا کورٹ مارشل اور عمران خان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل تو اس کی وجہ نہیں؟ یاد رہے 10 اپریل 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف پہلی بار باقاعدہ لشکر کشی کی صورت ڈی چوک پہنچی، جس کی قیادت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں (جو حکومت کیلئے کسی سرپرائز پیکج سے کم نہیں تھا)، مگر نتائج توقعات کے برعکس نکلے اور ڈی چوک پر ناحق خون بہہ گیا!
وزیر داخلہ محسن نقوی کی ترتیب دی گئی حکمت عملی ناکام دکھائی دی، آدھے پاکستان کو کنٹینر سٹی میں بدلنے کے بعد بھی وہ 'حقیقی آزادی' قافلے کو اسلام آباد آنے سے روکنے میں ناکام رہے۔ 6 سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت جن میں 4 رینجرز اہلکار بھی شامل ہیں جو مبینہ طور پر سری نگر ہائی وے پر مظاہرین کی گاڑی کے نیچے آنے سے ہلاک ہوئے، ایک لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر داخلہ تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کی ناکامی کو تحریک انصاف میں موجود 'خفیہ لیڈرشپ' سے جوڑتے رہے۔ اب نقصان ہونے کے بعد الزام لگانے سے کیا معاملات سلجھائے جا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا، تبھی پاکستان کا ایجنڈا آگے بڑھ پائے گا وگرنہ پاکستان کسی سانحے کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
عمران اخان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا گذشتہ ہفتے دیا گیا ایک بیان اسلام آباد مارچ سے پہلے ایک ٹریلر تھا، جس میں انہوں نے سعودی قیادت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مدینہ کے دورے کے دوران جب عمران خان ننگے پاؤں چلے تو جنرل (ر) باجوہ کو کالیں آنا شروع ہو گئیں کہ تم کسے اُٹھا لائے ہو، ہم یہاں شریعت ختم کر رہے ہیں اور تم یہاں شریعت کے ٹھیکداروں کو لے آئے ہو'۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بیرونی مداخلت کوئی نئی بات نہیں، لیکن سعودی عرب کی قیادت پر براہ راست الزام سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، (اگرچہ مسلم لیگ ن نے اس بیان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا) اور آج سکیورٹی فورسز سے تصادم نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
ہمارے روایتی میڈیا کا کردار اس سارے معاملے میں انتہائی شرم ناک تھا، حقائق کو کسی 'طاقتور' کے اشاروں پر خواہش میں بدلہ گیا، عوام کو گمراہ کیا جاتا رہا، لیکن یاد رہے اس میں نقصان میڈیا کی ساکھ کا ہی ہو گا (میڈیا مالکان کا نہیں، جن میں سے اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے)۔ خواہش کو خبر بنانے سے عوام کو زیادہ عرصہ بے وقوف نہیں بنایا جا سکے گا!
اس بار پختونخوا سے احتجاجی قافلے کی قیادت کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کارکنوں کو ڈی چوک لانے میں کامیاب ہوئیں یا ناکام، اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے نہ کہ حکومتی وزرا نے جو 'چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے' کی بڑھکیں مار رہے ہیں (تاہم تحریک انصاف کیلئے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی احتجاج کی قیادت باقاعدہ عمران خان کی اہلیہ کر رہی ہوں)۔ ڈی چوک میں کارکنوں کے قتل عام کے بعد کیا عمران خان کی بارگیننگ پوزیشن مضبوط ہوئی ہے یا مزید کمزور، اور کیا انہیں اب سیاسی سوچ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، تا کہ مزید نقصان سے بچا جا سکے؟
عمران خان کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، جب ضیاء الحق کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے محترمہ بینظیر بھٹو کے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ معاملات طے پائے تو پھر بینظیر بھٹو نے 1988 کی کابینہ میں جنرل ضیاء کی کابینہ کے عناصر کو شامل کیا (جن میں لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کی بطور وزیر خارجہ کابینہ میں شمولیت نمایاں تھی، جو ضیاء الحق کی کایبنہ میں بطور وزیر خارجہ شامل تھے) جو ظاہر ہے اس وقت اسٹیبلشمنٹ سے ٖڈیل کا نتیجہ تھا، لیکن اس کے بدلے بینظیر بھٹو اپنے سینکڑوں کارکنوں کو جیلوں سے رہا کروانے میں کامیاب ہو گئیں جو ضیاء کی آمریت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ تو کیوں عمران خان بھی اسی راستے پر چل کر اپنے اور تحریک انصاف کیلئے راستہ نہیں نکالتے؟ پاکستان کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے اور زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ پی ٹی آئی کی ڈھائی سالہ 'حقیقی آزادی' کی تحریک آج تک کسی 'آزادی' سے ہمکنار نہیں ہو پائی!
تحریک انصاف کے مخالفین کیلئے بشریٰ بی بی کی آفیشل انٹری کسی 'سرپرائز پیکج' سے کم نہیں تھی لیکن 'حقیقی آزادی' کے اس سارے ہنگامے میں وزیر اعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈا پور کے صوبے میں ایک ضلع ایسا بھی ہے جو آگ میں جل رہا ہے، اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع کرم میں تقریباً 85 افراد بے امنی کے واقعات میں جاں بحق ہو چکے ہیں جو کسی المیے سے کم نہیں۔ پختونخوا کے شمالی اضلاع میں امن و امان کی صورت حال شدید ابتر ہو چکی ہے جو فوری انتظامی فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ علی امین کا اپنے صوبے سے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ باقاعدہ قافلے کی صورت اسلام آباد پر لشکر کشی کرنا وفاق کو پختونخوا میں گورنر راج لگانے پر مجبور کر سکتا ہے جو بالآخر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے خاتمے پر منتج ہو گا۔ اگر حالات بہتری کی جانب نہیں بڑھتے تو ممکن ہے تحریک انصاف کو آنے والے دنوں میں پختونخوا میں اپنی حکومت سے ہی ہاتھ دھونے پڑ جائیں کیونکہ ایسی صورت حال میں جہاں ایک صوبے کا انتظامی سربراہ وفاق پر لشکر کشی کیلئے کمر بستہ ہو، وفاق زیادہ دیر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتا۔ اگر یہی نتائج عمران خان کو مقصود ہیں تو کیا پھر تحریک انصاف کہیں اپنے لیے کسی ایسے نئے بحران کو تو دعوت نہیں دے رہی جس کا سامنا کرنے کی صلاحیت کم از کم موجودہ قیادت میں تو نہیں ہے!