ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

01:26 PM, 27 Oct, 2021

حسنین جمیل فریدی
نیوزی لینڈ کی ٹیم بین الاقوامی سیاسی گیم کا حصہ بن کر پاکستان کو بھرے میدان میں چھوڑ گئی۔ بھارت میں مودی حکومت اور اس کے چمچوں نے ہندوتوا کے نام پر دونوں ملکوں کے مابین کرکٹ ترک کر دی۔

پاکستان کی ٹیم نے ورلڈ کپ کے ابتدائی میچوں میں دونوں ممالک کی ٹیموں کو میچ ہرا کر مغربی طاقتوں اور فسطائی ہندوتوا سوچ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ قومی ترانے کے دوران آنکھیں بھر آنے والی اور مشکل سیاسی صورتحال سے دو چار افغانستان کی ٹیم نے کامیاب آغاز سے دل جیت لیے تو ویرات کوہلی اور رضوان کی جپھی جب کہ دھونی و دھانی کی ایک تصویر نے اربوں لوگوں کی مایوسی کو امید میں بدل دیا۔

گزشتہ روز میچ ہارنے کے بعد ویلیمسن کی پریس کانفرنس میں ان کے چہرے پر بھی عیاں تھا کہ انہیں ہارنے کا افسوس نہیں مگر ماضی کے عمل پر شرمندگی ہے۔ کیوی کپتان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'سیکیورٹی کے نام پر دورہ پاکستان ادھورا چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کھلاڑیوں کا نہیں بورڈ کا تھا، جس پر ان کی ٹیم کو شدید مایوسی اور شرمندگی ہے۔'

دوسری جانب ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں 'بلیک لائیوز میٹر' (تحریک) کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے گھٹنوں پر بیٹھنے سے انکار کرنے پر جنوبی افریقی وکٹ کیپر کوئینٹن ڈی کوک کو ٹیم سے نکال دیا گیا۔

اِدھر ہمارے منہ پھٹ وزیر داخلہ شیخ رشید نے مہنگائی میں پستی عوام کو ایک دفعہ پھر مذہب کا چورن بیچتے ہوئے بھارت سے جیت کو مسلمانوں کی جیت قرار دیا۔ ان سے پوچھا جانا چاہیئے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ میں جو ٹیم جیتی تو اسے کس مذہب کی جیت قرار دیا جائے؟

https://twitter.com/pakistan_untold/status/1452464842070233089

اُدھر بھارت بھی پیچھے نہیں رہا اور ہندو انتہا پسندوں نے بھارتی گیند باز محمد شامی کو (مسلمان) غدار قرار دیتے ہوئے ٹیم سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔ جس کے بعد بھارتی مسمانوں پر ہوتے ظلم وستم پر خاموشی سادھنے والے کھلاڑیوں کو بھی بالآخر بولنا پڑا۔





کسر ہمارے سابق کوچ نے بھی نہ چھوڑی اور رضوان کو بھارتی 'ہندوؤں کے بیچ' نماز پڑھنے پر شاباشی دیتے ہوئے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو مزید تڑکا لگا دیا۔

https://twitter.com/pakistan_untold/status/1452844479124099082

کرکٹ کی حالیہ تاریخ میں جو کچھ ہورہا ہے، اس میں سمجھنے والی یہ بات ہے کہ کھلاڑیوں سمیت دنیا میں بسنے والا کوئی بھی فرد غیر سیاسی نہیں رہ سکتا۔ اب کرکٹ کے ہر کھلاڑی کا کردار ایک سیاسی کردار بن چکا ہے۔ دوسری جانب مذہب کے نام پر لڑی جانے والی بین الاقوامی جنگ میں ان کو آلہ کار بنایا جارہا ہے۔ اس مد میں ریاستوں کی طرف سے کھلاڑیوں کو نہ صرف مذہبی انتہا پسند بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کے نام پر بین الاقوامی سیاسی فسادات کروائے جا رہے ہیں۔ اگر کرکٹ ہیروز کا مقصد نفرتیں ختم کرنا ہے تو عملی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ہوگی۔ اور کرکٹ سمیت ہر اس مسئلے پر بات کرنا ہوگی جس سے امن عالم کو خطرہ لاحق ہے۔ مذہبی انتہا پسندی یہ مسائل حل کرنے کی بجائے مزید مسائل پیدا کرتی ہے۔

یقین جانیے! اگر ہم کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہر ملک میں اس انتہا پسندی کو روکنا ہوگا۔ وگرنہ 'ہاؤس آف (مذہب) کارڈ' کا جو بین الاقوامی کارڈ کھیلا جا رہا ہے وہ ہر قسم کے کھیل کھیلنے اور دیکھنے پر پابندی لگا دے گا۔

لہٰذا کرکٹ ہیروز، حقیقی ہیروز بنیں، وہ تمام اقوام کے امن پسندوں کی ایک امید ہیں۔ بڑھتی ہوئی نفرتوں کو ختم کرنے میں ان کا کردار اہم نوعیت اختیار کر گیا ہے۔ کرکٹ فیںز بھی ان مذہب فروش سیاستدانوں کے ہتھکنڈوں میں نہ آئیں اور نہ ہی جذبات میں آ کر کھیل میں مذہب کو گھسیٹیں۔ ہم سب کی فلاح انسانیت، اجتماعیت اور ایک دوسرے کے ساتھ اظہارِ یکجہتی میں ہی ہے۔

بقول ساحر لدھیانوی؎

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں، صرف میدانِ کشت و خوں ہی نہیں
حاصلِ زندگی خرد بھی ہے، حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں، فکر کی روشنی کو عام کریں۔۔۔۔
امن سے جن کو تقویت پہنچے ایسی جنگوں کا اہتمام کریں۔۔۔!
مزیدخبریں