انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو دبئی سے کینیا سلمان اقبال نے بھجوایا۔ سلمان اقبال نے ارشد سے کہا کہ آپ کینیا میں میرے دوست کے پاس چلے جائیں، وہ آپ کی میزبانی کریں گے۔ کینیا میں ارشد شریف کو جو شخص لینے آیا اس کا نام وقار احمد ہے اور وقار احمد سلمان اقبال کا دوست ہے۔
ارشد شریف نے اپنا کینیا جانا بہت خفیہ رکھا ہوا تھا۔ ان کے کینیا جانے کا علم چار سے پانچ لوگوں کو تھا جن میں ایک سلمان اقبال ہیں اور ایک اے آر وائے کے پروڈیوسر عدیل راجہ ہیں۔ وہ گذشتہ تین ماہ سے کینیا میں تھے مگر انہوں نے اس بارے میں اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا تھا۔
بلال غوری نے بتایا کہ ارشد شریف کا قتل کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ انہیں باقاعدہ گھیر کر اور کینیا میں بھیج کر مارا گیا ہے۔ سلمان اقبال، وقار احمد اور خرم احمد کو شامل تفتیش کر کے ساری گتھی سلجھائی جا سکتی ہے۔ اس قتل کا کھرا ان تینوں کی طرف جا رہا ہے۔ ان تینوں کو اگر تفتیش میں شامل نہیں کیا جاتا تو پھر یہ تفتیش بھی حقائق کو مسخ کرنے کی کارروائی ہوگی۔
بلال غوری نے بتایا کہ وقار احمد کا تعلق کراچی سے ہے۔ یہ تین بھائی ہیں۔ 90 کی دہائی میں کینیا منتقل ہوئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت بااثر ہو گئے۔ یہ لوگ کینیا میں حکومتی ٹھیکے دار ہیں۔ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے، اس میں وقار احمد کا فارم ہاؤس ہے۔ یہ بہت بڑی فائرنگ رینج ہے جہاں فوجیوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ خرم احمد اسی وقار احمد کا چھوٹا بھائی ہے جو گاڑی چلا رہا تھا۔ ارشد بھی اس فائرنگ رینج میں جاتے رہتے تھے۔ یہ ایک ویران علاقہ ہے جہاں زیادہ تر قبائلی لوگ رہتے ہیں۔ یہاں سے واپس آتے ہوئے ان کے ساتھ کیا ہوا، اس معاملے میں دو مؤقف سامنے آئے ہیں۔ ایک پولیس کا ہے اور ایک خرم احمد کا۔
بلال غوری کے مطابق اس واقعے کے بعد پاکستانی ہائی کمشنر سیدہ ثقلین نے وقار احمد کو بلایا اور ان سے سوال جواب ہوئے۔ اس ملاقات میں موجود ایک شخص نے مجھے تفصیل بتائی ہے۔ ان کے مطابق وقار احمد کا کہنا تھا کہ جب خرم احمد ارشد شریف کو واپس لے کر آ رہے تھے تو سڑک کو چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ کر بلاک کیا گیا تھا۔ یہ پتھر مقامی لوگ رکھتے ہیں اور گاڑیوں کو روک کر مسافروں سے پیسے مانگتے ہیں۔ یہاں خرم احمد نے گاڑی نہیں روکی۔ یہاں کوئی ناکہ نہیں تھا۔ کوئی پولیس اہلکار نہیں تھا۔ جونہی گاڑی انہوں نے گزاری تو پیچھے سے ان پر فائرنگ شروع ہو گئی۔ انہوں نے گھبرا کر گاڑی بھگا لی۔ اس دوران خرم احمد نے بڑے بھائی وقار احمد کو فون کرکے صورت حال بتائی تو انہوں نے کہا کہ تھوڑا آگے چل کر ہمارا فارم ہاؤس ہے آپ ادھر چلے جائیں۔
جب گاڑی اس فارم ہاؤس پہ پہنچی تو خرم احمد نے دیکھا کہ ارشد کی گردن ڈھلکی ہوئی ہے اور سیٹ پر بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ اس نے فوراً وقار احمد کو فون کر کے بتایا تو وقار احمد کو لگا کہ ارشد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ وقار احمد فوراً وہاں پہنچے اور وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ گاڑی پر برسائی جانے والی گولیوں میں سے دو گولیاں ارشد شریف کو پیچھے سے لگی ہیں اور وہ ہلاک ہو گئے ہیں۔
جب وقار احمد سیدہ ثقلین کو یہ ساری تفصیل بتا رہے تھے تو ان سے یہ سوال بھی ہوا کہ ارشد شریف سے ان کا کیا تعلق تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میری دوستی تھی اور میں ان سے کراچی میں ملا تھا۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ ارشد تو اسلام آباد میں رہتے تھے تو اس کا جواب وہ گول مول کر گئے۔ اگلا سوال بہت اہم ہے اور اس کا جواب بہت حیران کن ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ جب آپ کو پتہ چل گیا کہ ارشد اس دنیا میں نہیں رہے تو آپ نے سب سے پہلے ان کے خاندان والوں یا دوستوں میں سے کس کو ٹیلی فون کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کی فیملی یا دوستوں میں میں کسی کو نہیں جانتا، میں نے پہلی ٹیلی فون کال سلمان اقبال کو کی اور انہیں بتایا کہ ارشد کو قتل کر دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ہی ارشد شریف کو یہاں بھجوایا تھا اور ان سے میری دوستی ہے۔
سلمان اقبال کی بے حسی اور کم ظرفی دیکھیں کہ سب سے پہلے انہیں اطلاع ملی ہے اور ساری رات اور پھر دوپہر تک ان کے چینل پہ یہ خبر چلتی رہی کہ ارشد شریف کینیا میں ایک حادثے میں مارے گئے۔ انہیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اصل خبر دے سکیں۔ اسی خبر کی بنیاد پہ کنفیوژن پیدا ہوئی اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی یہی خبر چلتی رہی کہ یہ ایک کار حادثہ ہے۔
کینیا کی پولیس کا مؤقف بھی بار بار بدلتا رہا۔ پولیس کے مؤقف میں ایک جھول یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق گاڑی نیروبی سے دور جا رہی تھی جبکہ وقار احمد کے مطابق یہ گاڑی نیروبی کی طرف واپس آ رہی تھی۔ ہمارے ہاں پولیس مقابلوں کی جس طرح کی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں ویسی ہی کہانی کینیا کی پولیس گھڑ رہی ہے اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بول رہی ہے۔