ارشاد بھٹی صاحب کہتے ہیں کہ پنجاب میں بزدار کو لگانے کی تین وجوہات عمران خان صاحب نے بیان کی تھیں۔ ایک یہ کہ ان کے گھر میں بجلی نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ پسماندہ علاقے سے ہیں۔ اور تیسری یہ کہ کرپٹ نہیں ہیں۔ بقول ارشاد بھٹی کے، بجلی آ چکی ہے، گھر تک پکی سڑک بھی بن گئی ہے، اور تیسری وجہ بھی اب باقی نہیں رہی، کیونکہ پنجاب میں دکانیں کھلی ہوئی ہیں ٹرانسفر پوسٹنگز کے لئے۔ انہوں نے تو اور بھی مثالوں سے واضح کیا تھا لیکن ڈائیاگرام بنا کر عارف حمید بھٹی نے دکھائی۔
ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ استخارے کی مدد سے لگایا گیا تھا اور اب بھی خان صاحب کو یہی بتایا گیا ہے کہ ان کو ہٹانے کی صورت میں تین دن میں حکومت گر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے صاف کہہ دیا ہے کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت ہے، عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہے گا۔
آخر عثمان بزدار کا قصور کیا ہے؟ وہ ایسا کیا کر رہے ہیں جو باقی کوئی نہیں کر رہا؟ یا ایسا کیا نہیں کر رہے جو باقی سب کر رہے ہیں؟
یہاں تک کہ سہیل وڑائچ کے ’ہوشیار خان‘ نے بھی ’پریشان خان‘ کو یہی بتایا کہ ’وہ‘ تو ’اس‘ کی مان رہے ہیں لیکن وہ ’ان‘ کی نہیں مان رہا۔ مثالوں سے واضح کرنے کے لئے عثمان بزدار ہی کی بات کی۔
تو بات تو سمجھ آ گئی کہ عثمان بزدار کو ہٹانے کی شدید خواہش ہے۔ لیکن کیوں؟ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوا جا رہا تھا کہ حسن نثار کا کالم پڑھنے بیٹھ گیا جو ان کی جانب سے اپنے منہ پر پولے پولے تھپڑ مارنے کی خواہش کے اظہار کی وجہ سے پورے سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔
ایک جملہ پڑھنا تھا کہ دل کو قرار سا آ گیا۔ عثمان بزدار کی جگہ جگہ مٹی پلید کروانے والے کا نام کالم میں بڑا بڑا لکھا ہوا تھا۔ ملال ہوا کہ اتنے دن سے اس طرف دھیان کیوں نہ گیا۔ لیکن تسلّی بھی ہوئی کہ عثمان بزدار کے اصل دشمن کا پتہ چل گیا۔
حسن نثار لکھتے ہیں:
’’پنجاب کو کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ شہباز شریف کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چوہدریوں جیسے تجربہ کار، موثر اور ڈلیور کرنے والے میدان میں اتارے جاتے۔۔۔‘‘