وزیراعلیٰ نے میڈیا کے ذریعے واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد اعلیٰ حکام کی ہدایات کی تھی کہ لڑکی کا ہر ممکنہ علاج کیا جائے جبکہ واقعے میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ پولیس نے ان ہدایات کی روشنی میں اس افسوسناک واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ 24 ستمبر کو پیش آیا۔ متاثرہ خاتون کے قریبی رشتہ دار اس کا جن نکالنے کیلئے جعلی پیر کو گھر لائے تھے۔
آگ سے لڑکی کا چہرہ، بازو اور کمر بری طرح جھلس گئی۔ اہلخانہ نے لڑکی کو آگ میں جلتا دیکھتے ہوئے شور مچایا تو رشتہ دار بھاگ گئے لیکن علاقہ مکینوں نے جعلی پیر کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد فوری طور پر اس لڑکی کو ملتان کے نشتر ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں اسے طبی امداد دی جا رہی ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق متاثرہ لڑکی کی عمر لگ بھگ 20 سال ہے جس کا ذہنی توازن درست نہیں۔ لڑکی کے بعض رشتہ دار اسے دم کروانے کیلئے علاقے کے ایک پیر کو لائے جس نے دم کرنے کیلئے آگ جلائی جو بھڑک اٹھی، اس سے ماہ نور نامی یہ لڑکی بری طرح جھلس گئی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان کے دیہاتوں میں توہم پرستی اور جہالت اس قدر عام ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کا علاج کرانے کی بجائے ایسے جعلی پیروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث جن افراد کا ایف آئی آر میں نام درج کرایا گیا ہے متاثرہ خاتون کے اہلخانہ ان کے نام کٹوانا چاہتی ہے لیکن انھیں بھی گرفتار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔