امریکہ کا طالبان سے خفیہ معاہدہ پاکستان سے بھاری قیمت ادا کروا سکتا ہے

09:03 PM, 27 Sep, 2021

توصیف احمد خان
ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ اپنے غموں کو بھلانے کے لئے ہمیشہ کی طرح طالبان کی فتح پر بہت خطرناک بین الاقوامی معاملات کو بری طرح نظرانداز کرتے ہوئے جشن منا رہے ہیں۔ یہ عوام کا قصور نہیں بلکہ ضیائی پڑھے لکھے ریٹائرڈ لوگوں نے تاثر ہی ایسا پیدا کیا ہے کہ عوام اپنے ستر ہزار پیاروں کی قربانی کو نظرانداز کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کو دو مختلف تنظیمیں سمجھے ہوئے ہیں۔ عمران خان سمیت ریٹائرڈ لوگوں نے کامیابی کا شور ایسا ڈالا ہے کہ نہ تو پارلیمنٹ میں کسی کو چیف آف آرمی سٹاف کی طالبان بارے بریفنگ یاد رہی اور نہ یہ حقیقت کہ افغان طالبان سے معاہدے کے بعد اچانک امریکہ کو افغانستان میں کیا ایسا بھوت نظر آ گیا کہ امریکی فوج نے اس طرح دوڑ لگائی کہ اتنا اہم خطہ چین اور روس کے لئے خالی چھوڑ دیا جب کہ افغانستان پر امریکی قبضہ Mackinder  اور بعد ازاں جارج کینن کی New great game  تھیوری کی عملی شکل سمجھا جاتا ہے۔

اس نظریے کے مطابق روس و چین کا راستہ روکنے اور دنیا پر حکمرانی کے لئے وسطی ایشیا میں اثر و رسوخ لازم قرار دیا گیا۔ برزنسکی نے اسی نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے Grand chess board کا نظریہ پیش کیا۔ اس تھیوری کے تحت برزنسکی نے نہ صرف وسطی ایشیا کے crescent بنانے والے ممالک پر اثر رسوخ رکھنے والے ملک کو ہی مستقبل کی عالمی طاقت قرار دیا بلکہ بعد میں یہ بھی کہہ دیا کہ روس اور چین آخرکار اکٹھے ہو جائیں گے اور یہ کمیونزم یا سوشلزم کا ملاپ نہیں ہوگا بلکہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف ہوگا، لہٰذا امریکہ کو سپر پاور رہنے کے لئے یوریشیا پر غلبہ پانا ہوگا۔

برزنسکی کارٹر دور حکومت میں 1977 سے لے کر 1981 تک نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر رہا۔ اس کے نظریات (خاص طور پر یوریشیا پر غلبہ) 1968 سے لے کر آج تک امریکیوں اور خاص طور پر ڈیموکریٹس کے لئے اگلے سو سال کے لئے دنیا پر امریکی حکمرانی کے لئے مشعل راہ ہیں۔ امریکہ نے بیس سال کی خونی جنگ کے ذریعے اس خطے میں اپنے قدم جمائے تھے تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ خطہ مکمل طور پر چین، روس یا ان کے علاقائی اتحادی پاکستان یا ایران کے رحم و کرم پر چھوڑ دے جب کہ چین پہلے سے ہی Mackinder کی تھیوری پر عمل کرتے ہوئے اپنے بی آر آئی منصوبے کے تحت ان علاقوں پر اپنا غلبہ بڑھا رہا ہو اور برزنسکی نے یہ بھی کہہ رکھا ہو کہ اب کی بار امریکہ کے مقابلے کے لئے روس کی بجائے چین قیادت کرے گا۔

چین نے نہ صرف معیشت، ٹیکنالوجی اور BRI منصوبوں سے سبقت حاصل کی ہے بلکہ سلک روٹ کے ذریعے اپنی میری ٹائم کمزوریوں پر بھی قابو پایا ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے امریکہ کی افغانستان میں موجودگی سے چین کو دہشت گردی سے تحفظ حاصل تھا جب کہ پیسے بھی امریکہ خرچ کر رہا تھا لیکن اب چین کو طالبان کے ساتھ بات چیت میں تین پہلو مد نظر رکھنا ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپنے آپ کو افغانستان کی خانہ جنگی سے دور رکھے۔ دوئم، افغانستان کو تجارت کی طرف مائل کرے۔ اور سوئم یہ کہ طالبان کو اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے چین میں عسکریت پسندوں کی آمد و رفت کو رکوائے رکھے کیونکہ چین کے دو عدد BRI منصوبے افغانستان کے انتہائی قریب سے گزرتے ہیں اور افغانستان میں بدامنی کا براہ راست اثر ان منصوبوں اور پاکستان، تاجکستان، کرغزستان اور ازبکستان پر آئے گا۔ اسی لئے چین افغانستان اور باقی خطے کی سکیورٹی کے لئے روس کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شراکت دار بنا چکا ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ زرد پانیوں کی یہ طاقت افغانستان کی سرزمین پر اترے، چاہے اس کی وجہ خانہ جنگی ہو، BRI منصوبوں کی حفاظت ہو یا افغانستان کے زمین میں مدفن معدنی خزانے ہوں۔

لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ سپر طاقت بھی رہنا ہو اور اس کے لئے یوریشیا پر غلبہ بھی رکھنا ہو تو افغانستان پر طالبان کو قابض ہونے دیا جائے اور پاکستان کو چین سے علیحدہ کر کے دیکھا جائے جب کہ جنوبی ایشیا میں چین کے لئے پاکستان کو وہی مقام دیا جاتا ہو جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لئے اسرائیل کا ہو؟

حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے ہمارے ضیا دور میں پرورش پانے والے "دانشوروں " کو نظر آنے لگے ہیں۔ کیا یہ بات ہمیں بھول جانی چاہیے کہ امریکہ نے افغان حکومت کی اسی وقت قربانی دے دی تھی جب انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں فریق ہی نہ بنایا گیا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے آغاز کے لئے سہیل شاہین کی دریافت امریکہ کے ایک اتحادی ملک کی کاوش تھی اور پھر انہیں ملا عمر کا صحیح پیغام رساں ثابت ہونے پر دوحا میں لایا گیا؟ بہت عرصہ پاکستان کو اس بات چیت سے بے خبر رکھا گیا اور یہ حیران کن شرط طالبان کے طرف سے سامنے آئی تھی۔ شاید یہی وہ نیا گیم پلان تھا جس کی وجہ سے مضبوط اور بڑے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے حامد کرزئی کی جگہ اشرف غنی کو لایا گیا اور عبداللہ عبداللہ کو بھی قبول نہ کیا گیا۔ کیا اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے کہ اربوں ڈالر کا امریکی اسلحہ اور دیگر سازوسامان طالبان کے ہاتھ لگ گیا اور اب واویلا خواتین کے حقوق پر کیا جا رہا ہے۔

صرف چند دنوں میں ایک  بکھری ہوئی گوریلا فورس اکٹھے ہو کر باقاعدہ فوج بن جاتی ہے اور پھر پورا ملک کسی خاص مزاحمت کے بغیر فتح کر لینا کسی جادو سے کم تو نہیں۔ کیا کسی کو تیار رہنے اور دوسری طرف ہتھیار ڈالنے کا اشارہ پہلے سے ہو چکا تھا؟ ادھر پاکستان میں چند ناعاقبت اندیش مسلسل قوم کو یہ گولی دے رہے ہیں کہ تحریک طالبان دراصل داعش کی اتحادی ہے اور اس کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں اور اس معاملے میں وہ اپنے آرمی چیف کی پارلیمانی بریفنگ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب جیلوں سے قیدی رہا ہوتے ہیں تو داعش کے امیر کو تو قتل کر دیا جاتا ہے لیکن ٹی ٹی پی کے نائب امیر اور اس کے کمانڈروں کو باعزت رہا کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے وہ اس تمام جنگ کے دوران پاکستان پر دباؤ ڈالے رکھنے اور افغانستان میں خودکش بمباروں سے لے کر افرادی قوت فراہم کرنے تک ہر کام کو بخوبی انجام دیتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں دونوں طرف یعنی حقانی گروپ اور ٹی ٹی پی کے باہمی تعاون کی نگرانی کو القاعدہ نے بخوبی نبھایا اور اسی وجہ سے سراج حقانی القاعدہ کے قریب ہوتے چلے گئے۔

دوسری طرف دنیا کے لئے داعش کے خطرے کو بڑا کر کے پیش کیا جا رہا ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ ننگرہار اور کنڑ میں داعش کے خلاف جنگ امریکہ، طالبان اور افغان فوج نے مل کر لڑی اور انہیں تباہ کر دیا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ 2019 سے لے کر امریکی انخلا تک طالبان نے امریکی فوج پر حملے نہیں کیے اور صرف افغان فوج و عوام کو نشانہ بنایا؟

ہمیں یہ غرض نہیں ہونی چاہیے کہ افغانستان میں کیسی حکومت ہو اور کس طرح قائم ہو کیونکہ اس معاملے کا فیصلہ تو ابھی تک ہم اپنے بارے میں نہیں کر سکے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان کے پہلے دور میں بھی سابقہ فاٹا میں ان کا کافی اثر و رسوخ قائم ہو چکا تھا کیونکہ افغانستان اور پاکستان کی دیہی پشتون آبادی ایسے قبائلی نظام کو پسند کرتی ہے جسے بڑی صفائی کے ساتھ  اسلامی نظام کا بھی نام دے دیا جائے اور اب کی بار تو طالبان پشتون قوم پرست بھی بن کر دکھانا چاہ رہے ہیں اور ساتھ ہی نچلے درجے پر پاکستان کے ساتھ دشمنی کا تاثر بھی بڑی شدومد سے دیا جا رہا ہے۔

کیا طالبان کسی کے ایما پر گریٹر پختونستان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں؟ پاکستان میں کسی کی عارضی یا مستعار لی ہوئی فتح پر بغلیں بجانے کی بجائے یہ سوچنا ہوگا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ہماری افواج پر حملوں میں کیونکر اضافہ ہو سکتا ہے جب کہ ہمارا وزیر اعظم تک ان کا ہمدرد بنا بیٹھا ہو۔ کیا تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کا افغانستان میں رہا ہونا اور آزادی کے ساتھ کام کرنا کسی نئی گریٹ گیم کا حصہ تو نہیں جس کی زد میں چین اور پاکستان کو لانا مقصود ہو تاکہ ایک نئی جنگ کا آغاز ہو سکے  جس کے ذریعے جنگ وہاں تک پہنچائی جا سکے جہاں سے سی پیک گزرتا ہے؟

تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کی دوسری جنگوں کے برعکس افغانستان میں جنگ کی سنگینی اس کے اختتام کے بعد شروع ہوتی ہے۔

کیا ہم کبھی اپنے بارے میں بھی سوچیں گے؟
مزیدخبریں