مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف، پارٹی کے سینیئر رہنماؤں، نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ باخبر ذرائع نے خبر دی ہے کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس نہیں آ رہے۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی مبشر لقمان نے۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں سینئر صحافی اور اینکر مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مجھے میرے ذرائع سے دو خبریں ملی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان میں ہر کسی کا ہر حربہ الٹا پڑ رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کے سابق اور موجودہ دونوں شوہر جیل میں ہیں، ایک کے پاس سیاست ہے اور دوسرے کے پاس پیسہ ہے۔ بشریٰ بی بی کے تمام تعویذ الٹے پڑ گئے ہیں۔ دوسری خبر یہ کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس نہیں آ رہے۔
مبشر لقمان کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد کی واپسی کی تمام تیاریاں ہو چکی ہیں۔ پارٹی قیادت لندن میں بیٹھی ہے۔ میاں صاحب سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ منصوبے بن رہے ہیں۔ مریم نواز بھی وطن واپس آ گئی ہیں۔ پارٹی رہنماؤں کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان کے مثالی اور شاندار استقبال کے لیے اکٹھا کیا جائے۔ تاہم اصل خبر یہ ہے کہ نواز شریف اکتوبر میں پاکستان نہیں آ رہے۔ نواز شریف کے اپنے بھائی شہباز شریف، اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس وقت میاں صاحب تلوار کے ساتھ چومُکھی کھیل رہے ہیں اور ان کے قریب ان کی ہمدرد صرف ان کی بیٹی مریم نواز ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ وہ دل و جان سے اپنے والد صاحب کے ساتھ ہیں۔ باقی کوئی بھی نہیں چاہتا کہ نواز شریف واپس آئیں۔
صحافی نے مزید کہا کہ شہباز شریف 48 گھنٹوں بعد ہی خصوصی طور پر میاں صاحب کے لیے پیغام لے کر لندن واپس چلے گئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ آپ اپنا بیانیہ تبدیل کریں۔ اس بیانیے کے ساتھ ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے لیکن میاں صاحب نے ساری عمر خلاف ورزی کی سیاست کی ہے تو وہ اپنے بیانیے پر اڑ گئے ہیں۔ نواز شریف نے چھوٹے بھائی کو جواب دیا کہ میرا بیانیہ یہی رہے گا۔ نواز شریف نے تمام پارٹی رہنماؤں کو ہدایت دی کہ اسی بیانیے کو لے کر چلیں۔
چند روز قبل سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو کی تھی۔ اس دوران ان سے ںواز شریف کے بیانیے کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ '4 ججز اور 2 جرنیلوں' کے احتساب والا بیانیہ لے کر چلیں گے تو اس پر اسحاق ڈار نے سوال کا جواب دینے سے ناصرف گریز کیا بلکہ وہ صحافیوں پر قدرے برہم بھی ہوئے۔ انہوں نے نواز شریف کا بیانیہ ساتھ لے کر چلنے کی تصدیق کی اور نا ہی اس کی تردید۔ یعنی یہ بیانیہ ان کے گلے پڑ گیا ہے اور نواز شریف واپس نہیں آ رہے۔
مسلم لیگ ن کے سپورٹرز اور رہنماؤں پر میاں صاحب کے پاکستان نہ آنے والی خبر بجلی بن کر گرے گی جبکہ ن لیگ کے مخالفین کے لیے اس میں کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہو گی۔ صحافی نے کہا کہ ایک ذمہ دار شخص سے میری بات ہوئی تو اس نے کہا کہ میاں صاحب کا سارا مال و دولت، کمپنیاں، فلیٹ، بچے سب کچھ تو وہیں لندن میں ہے تو انہوں نے واپس آ کر کیا کرنا ہے؟ کیا وہ جیل جانے کے لیے واپس آئیں گے؟ وہ جیل نہیں جانا چاہتے۔
میاں صاحب نے جس روز نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے بیانات سنے کہ جہاز کے اندر سے گرفتار کرنا آسان ہوتا ہے اور ایئرپورٹ پر ہم کسی کو نہیں آنے دیں گے تو اس کے بعد میاں صاحب کا بلڈ پریشر گھٹ گیا اور آخری اطلاعات کے مطابق ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد بھی دوبارہ سے گرنے لگی ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ زور آوری کرنے کی کوشش کی اور اپنے کچھ واقفان کو فون کیے تو میاں صاحب کی مکمل بات سنے بغیر ہی فون بند کر دیا گیا۔ کوئی بحث ہی نہیں ہوئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ کر لو جو کرنا ہے۔ اب میاں صاحب کو سمجھ آ گئی ہے کہ یہاں دال نہیں گلے گی اور یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گا۔ اس لیے نواز شریف نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو وطن واپس نہیں آ رہے۔ ان کو یہ بھی خدشہ ہے کہ انتخابات شاید فروری میں بھی نہیں ہوں گے۔
اس وقت میاں صاحب کسی سے بھی کوئی بات شیئر نہیں کر رہے، خاص طور پر شہباز شریف کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں۔ شہباز شریف سے ہر بات صیغہ راز میں رکھی جا رہی ہے کیونکہ میاں صاحب کا خیال ہے کہ شہباز شریف 'بھائی لوگوں' کے ساتھ مل چکے ہیں، اس کے اپنے عزائم ہیں اور یہ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ لہٰذا شہباز شریف کو جب یہ خبر ملے گی تو وہ بہت خوش ہوں گے۔ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو شہباز شریف کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات بھی ہیں۔ اگرچہ کھلے عام تو وہ منع کریں گے لیکن اندر سے ان کی خوشی دوبالا ہو جائے گی۔
چونکہ 4 سال پہلے میاں صاحب علاج کی غرض سے لندن گئے تھے لیکن اب ان کا علاج دوبارہ سے شروع ہو گا۔ اب اس میں کتنا وقت لگے گا، کوئی نہیں جانتا۔ نواز شریف کے شہباز شریف، پارٹی کے سینیئر رہنماؤں، نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات سے ان کی واپسی کے منصوبے کو دھچکا لگا ہے۔ اب وہ کشمکش کا شکار ہو گئے ہیں اور ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق 21 اکتوبر کو وہ پاکستان واپس نہیں آ رہے۔