پی ٹی آئی مراد سعید، اظہر مشوانی سمیت کس کس کو سینیٹر بنوانا چاہتی ہے؟

مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک فارمولہ طے پا گیا ہے جس کے تحت خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی کل 11 نشستوں میں سے 8 پی ٹی آئی کو ملیں گی جبکہ اپوزیشن کو 3 سیٹیں دی جائیں گی۔ تمام سینیٹرز کا انتخاب بلامقابلہ ہو گا۔

07:33 PM, 27 Sep, 2024

عمیر محمد زئی

خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مبینہ طور پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے اور صوبے کے تمام سینیٹرز کو بلا مقابلہ منتخب کروائے جانے کا امکان ہے تاہم اس کیلئے عمران خان کی رضامندی درکار ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے ممکنہ امیدواروں نے سینیٹ ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے لابنگ تیز کر دی ہے، لیکن کئی امیدواروں کے خلاف پارٹی کے اندر سے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں اس وقت سینیٹ کی 11 نشستوں پر الیکشن ہونا ہے جن میں 7 جنرل، 2 ٹیکنوکریٹ جبکہ 2 خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تاحال صوبے میں سینیٹ انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا تاہم مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک فارمولہ طے پا گیا ہے جس کے تحت کل 11 نشستوں میں سے 8 پی ٹی آئی کو ملیں گی جن میں 5 جنرل، 1 ٹیکنو کریٹ اور 2 خواتین کی نشستیں شامل ہیں جبکہ اپوزیشن کو 3 سیٹیں دی جائیں گی جن میں 2 جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ کی سیٹ شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک سیٹ پاکستان مسلم لیگ ن اور 2 جے یو آئی کو دی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی سینیٹ کی ایک سیٹ کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ یہ اب جے یو آئی پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح پیپلز پارٹی کو راضی کرتی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں یہ بھی اتفاق ہوا ہے کہ تمام سینیٹرز بلامقابلہ منتخب کروائے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما کے مطابق عمران خان پہلے تو اتحاد کے حق میں نہیں تھے لیکن یہ اب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح انہیں راضی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے جو فیصلہ دیا تھا اس کے مطابق پی ٹی آئی کو اسمبلی میں خواتین کی تقریباً 22 نشستیں ملنی تھیں تاہم قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترامیم کے بعد تحریک انصاف کو 10 سے 12 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ اس وقت پختونخوا اسمبلی پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد 58 ہے جبکہ 35 ان کے حمایت یافتہ ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی کو اپنے اراکین ہی کے تناسب سے سیٹیں ملیں گی۔ اس بات کا امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی سیٹیں اپوزیشن کو دی جائیں گی۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کے ممکنہ امیدواروں کی جو لسٹ سامنے آئی ہے اس پر بھی اعتراضات ہو رہے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما کے مطابق یہ لسٹ حتمی نہیں ہے اور اس میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ پارٹی کے اندرونی حلقوں میں جو لسٹ سامنے آئی ہے اس میں پہلا نام مراد سعید کا ہے۔ سینیٹ کے ایک ممکنہ امیدوار نے ہمیں بتایا کہ مراد سعید حتمی امیدوار ہے لیکن ان کے متعلق اب بھی پارٹی میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ سینیٹر بن پائیں گے یا نہیں۔ اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے کیونکہ وہ مراد سعید کو سینیٹ سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔

دوسرے نمبر پر فیصل جاوید کا نام ہے۔ پچھلی مرتبہ بھی وہ پختونخوا کی سیٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے بزرگوں کا تعلق ضلع صوابی سے تھا لیکن بہت پہلے وہ یہاں سے شفٹ ہو گئے تھے۔

تیسرا نام ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا آفریدی کا ہے جو ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں اور پی ٹی آئی کی کئی طاقتور شخصیات ان کی پشت پر ہیں۔ پارٹی کارکن ان پر الزام لگاتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد وہ منظرعام سے غائب ہو گئے تھے اور گراؤنڈ پر نظر نہیں آئے، لہٰذا ان کے بجائے کسی کارکن کو یہ ٹکٹ دیا جائے۔

چوتھے نمبر پر عرفان سلیم کا نام ہے جن کا تعلق پشاور سے ہے اور پارٹی کے پرانے کارکن ہیں۔ گراس روٹ لیول سے اوپر آنے والے عرفان سلیم کے بارے میں عمران خان نے بھی کہا تھا کہ انہیں سینیٹ میں ضرور لانا چاہیے۔

پانچویں سیٹ پر بڑا مسئلہ چل رہا ہے۔ مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے انصاف یوتھ ونگ کے نوجوان رہنما ڈاکٹر شفقت ایاز بھی امیدوار ہیں اور سابق وفاقی وزیر نور الحق قادری بھی۔ ڈاکٹر شفقت ایاز نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں اور پارٹی کے پرانے وفادار ہیں۔ کئی تگڑے صوبائی وزرا اور مرکزی رہنما ان کی حمایت میں ہیں۔

سابق وفاقی وزیر نور الحق قادری جن کا تعلق ضلع خیبر سے ہے، وہ بھی سینیٹ میں جانے کیلئے لابنگ کر رہے ہیں۔ پہلے ان کا نام ٹیکنوکریٹس کی لسٹ میں شامل تھا لیکن جب حکومت نے ایک ٹیکنوکریٹ سیٹ اپوزیشن کو دینے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے جنرل سیٹ پر کاغذات جمع کرائے۔ متعدد رہنماؤں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 9 مئی کے بعد پارٹی پر سخت وقت آیا تو وہ مبینہ طور پر بیرون ملک چلے گئے تھے اور انہوں نے کسی احتجاج میں حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے بتایا کہ نور الحق قادری کا ایک بھتیجا عدنان قادری جو ان کا داماد بھی ہے، اس وقت خیبر پختونخوا حکومت میں صوبائی وزیر ہے، لہٰذا پارٹی پالیسی کے مطابق ان کے بجائے کسی دوسرے بندے کو موقع دیا جائے۔

لندن میں مقیم تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اظہر مشوانی نے بھی سینیٹ کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ وہ مراد سعید کے متبادل تھے، تاہم پارٹی ذرائع کے مطابق انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے کاغذات واپس لے لیں جو تاحال انہوں نے واپس نہیں لیے ہیں۔ ان کے نام پر بھی تحفظات سامنے آئے ہیں۔ ایک رہنما نے اس سلسلے میں بتایا کہ بے شک پارٹی کیلئے ان کی بے شمار قربانیاں ہیں اور وہ اب بھی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق اس صوبے سے نہیں ہے اس لیے مقامی رہنماؤں کو ایڈجسٹ کیا جائے۔ اظہر مشوانی کے آباؤاجداد کا تعلق مانسہرہ سے تھا لیکن بہت پہلے وہ یہاں سے منتقل ہو کر لاہور چلے گئے تھے۔

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے خرم ذیشان اور فیض الرحمان بھی سینیٹ پہنچنے کی دوڑ میں شامل تھے لیکن اب وہ لسٹ سے مبینہ طور پر باہر ہو گئے ہیں لیکن وہ اب بھی اپنے لئے لابنگ کر رہے ہیں۔

ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر اعظم سواتی اور خواتین کی دو نشستوں پر عائشہ بانو اور فوزیہ امیدوار ہیں۔

مزیدخبریں