غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق، ملک کی مختلف جیلوں میں اس وقت سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد چار ہزار چھ سو 88 ہے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی نمائندہ سارہ بلال نے کہا، ذہنی امراض کے شکار مریض جرائم کے ذمہ دار نہیں ہوتے کیوں کہ اس میں ان کا ارادہ شامل نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب، اب تک صرف 200 قیدی ہی رہا ہوئے، رپورٹ
ان خیالات کا اظہار پروگرام بعنوان ’’دوران قید ذہنی صحت کی سہولیات‘‘ میں کیا گیا جو جسٹس پراجیکٹ پاکستان، نیشنل اکیڈمی فار پرزنس ایڈمنسٹریشن اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے اشتراک سے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کیا گیا۔
ذہنی امراض کی ماہر ڈاکٹر اسماء ہمایوں نے کہا، حراست میں لیے جانے سے قبل امراض کا شکار یا اس جانب بڑھنے والے افراد کی نشاندہی کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، ہو سکتا ہے، بہت سے قیدی ذہنی امراض کا شکار نہ ہوں لیکن وہ علاج کروانے سے قاصر رہے ہوں کیوں کہ بہت سے عام ذہنی امراض کا علاج غیر ماہر افراد بھی کر سکتے ہیں۔
بعدازاں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات اور جیل سپرنٹنڈنٹس پر مشتمل پینل نے ذہنی عارضوں کا شکار قیدیوں کو سنبھالنے اور ان کے علاج کے لیے قانون سازی کے حوالے سے درپیش چیلنجوں پر بات کی۔