'وائس پی کے' کے مطابق جاں بحق ہونے والے صحافی کا نام عبدالرشید بھٹی اور ان کا تعلق اے پی پی نیوز ایجنسی سے تھا۔ وہ اپنے کیریئر میں ایجنسی کے جرنسلٹ یونین کے صدر بھی رہے ہیں۔ معروف صحافی کی کرونا وائرس کے ہاتھوں موت سے صحافی برادری خصوصی طور پر اسلام آباد کے صحافتی حلقے سوگوار ہیں۔ لیکن یہ بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا صحافتی ادارے، ٹی وی چینلز اور میڈیا مالکان صحافی ورکرز کو کسی قسم کے حفاظتی اقدامات کیوں نہیں فراہم کر رہے۔
یاد رہے کہ نیا دور نے گزشتہ روز دنیا نیوز، اے آر وائی اور سٹی نیوز نیٹ ورک کےدفاتر میں متعدد صحافیوں اور دیگر عملہ میں کرونا وائرس کی تصدیق اور انکی انتظامیہ کی جانب سے غفلت برتنے کے بارے میں خبر دی تھی۔
خبر کے مطابق اے آر وائی نیوز اسلام آباد کے دفتر میں 8 ملازمین کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ ڈی سی آفس سے ملنے والی معلومات کے مطابق دو روز قبل اے آر وائی بیورو آفس میں سٹاف کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ ٹیسٹ کے نتائج آنے پر سٹاف کے 7 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ کیسز سامنے آنے کے بعد بیورو آفس اسلام آباد کو سیل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے سٹی نیوز نیٹ ورک کے ہیڈ آفس میں کرونا کے کیسز سامنے آئے تھے۔ جہاں گزشتہ ہفتے مزید کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔ چینل کے بیوروچیف سمیت رپورٹرز، اسائنمنٹ ایڈیٹرز اور دیگر ٹیکنیکل سٹاف کی بڑی تعداد اس وائرس کا شکار ہوئی ہے۔
جبکہ دنیا نیوز کے ملازمین میں بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی۔ معلومات کے مطابق دنیا نیوز کے لاہور میں واقع ہیڈ آفس کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے جواد نامی ملازم میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد دنیا نیوز کے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے دیگر ملازمین کے ٹیسٹ بھی کیے جا رہے ہیں اور دیگر ملازمین کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
تاہم افسوسناک امر یہ کہ دنیا نیوز اور سٹی نیوز نیٹورک کی انتظامیہ کی جانب سے اس صورتحال میں بھی صحافیوں کو کام کرنے کے لئے بلایا جا رہا ہے بلکہ اس صورتحال کے بارے میں بات نہ کرنے کے لئے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔