ملک میں اس عالمی وبا کو 2 ماہ کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے تاہم اس دوران ایک ماہ میں کیسز کی تعداد کم جبکہ دوسرے ماہ کافی زیادہ دیکھنے میں آئی۔ 26 فروری کو پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس کراچی میں رپورٹ ہوا تھا جبکہ 18 مارچ کو ملک میں وائرس سے پہلی موت کی تصدیق خیبرپختوںخوا میں ہوئی تھی۔ اگر وائرس کے کیسز کے پھیلاؤ پر نظر ڈالیں تو 25 مارچ تک ملک میں ایک ہزار کیسز تھے تاہم اس کے بعد سے اب تک تقریباً 13 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اسی طرح مارچ کے آخر تک پاکستان میں اموات کی تعداد 26 تھی جو آج 28 اپریل تک 265 ہو چکی ہیں۔
ایسی صورتحال میں ایک سوال سب کہ ذہن میں ہے اور وہ یہ کہ کرونا وائرس کب ختم ہوگا؟
اس سوال کا جواب عالمی ادارہ صحت نے دے دیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کی وبا کے جاری رہنے سے متعلق انتباہی پیغام میں کہا ہے کہ تمام ممالک ذمہ داری کا احساس کریں اور عوام کی صحت کا جامع طریقہ اپنائیں۔ کرونا ابھی ختم نہیں ہوا، ادارے کے مشوروں کو اہمیت دینا چاہیے، یہ ادارہ سائنس اور ثبوت کی بنیاد پر بات کرتا ہے، کرونا وبا کا خاتمہ ابھی دور ہے، اس لیے تمام ممالک اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔
ایک ہفتہ قبل بھی عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ کرونا وبا کے حوالے سے بدترین وقت ابھی نہیں آیا، بلکہ آنے والا ہے، ساری دنیا کو متحدہ ہو کر اس وائرس سے لڑنا ہوگا۔
ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا تھا کہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں کہ کرونا ایک حقیقت ہے۔ کرونا وائرس 100 سال کے دوران پہلی بار آیا ہے، 1918 میں انفلوئنزہ سے 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے، اگر لاک ڈاؤن کی پابندیوں کو عجلت میں ہٹا دیا گیا تو اس سے وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جب تک اس وبا کے خلاف ویکسین دریافت نہیں ہوتی تب تک وبا کے خلاف احتیاطی تدابیر کا طریقہ اپنانا ہوگا۔
گذشتہ ماہ بھی ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے طویل عرصے تک اثرات کے حوالے سے خبردار کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ محدود وقتی دوڑ نہیں بلکہ میراتھون ہے۔