کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں بیماری موت کے خوف سے کہیں زیادہ اپنی روایات عزیز ہیں اور وہ افطار پارٹیاں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ چھوٹے معصوم بچے، خواتین مرد بوڑھے جوان ایک کمرے میں کھوے سے کھوا لگائے، جوڑے افطار کر کے باجماعت نمازیں ادا کررہے ہیں، اور انواع اقسام کے کھانے تناول فرما رہے ہیں، اور پولیس والے باتوں باتوں میں مستقبل کے اندیشے ظاہر کرتے ہوئے کہ رہے ہیں، ایک آدھ ماہ بعد خوراک کی قلت کا خدشہ ہے، جس کے ساتھ ہی جرائم کی شرع میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں خوراک کی کمی نہیں مگر ورکرز کی کمی اور لاک ڈاؤن کے ساتھ کرونا کے چمٹنے کے خوف نے بڑے پیمانے پر اس سے ادھر مال کی ترسیل قریباً ناممکن سی بنا دی ہے۔
ایک پاکستانی امریکن بورن ڈاکٹر کہتے ہیں مخدوش مستقبل کے خوف نے انہیں بھی اسلحہ خریدنے پر مجبور کر دیا۔ مرسیڈیز چلانے والے راشن لینے والوں کی قطار میں جب کھڑے نظر آئیں تو آنے والے دنوں کا منظر از خود ہی نگاہ میں اپنا تصور پیش کرنے لگتا ہے۔ پولیس والے کہتے ہیں اگر مندر، مسجد اور چرچ کے ساتھ سینا گاگ نے راشن فراہم کرنے میں کوتاہی برتی تو خدا امریکہ سے ناراض ہو سکتا ہے جو ہمارے صدر کے ’عمرانی‘ رویے اور بیانات سے پہلے ہی ناراض نظر آتا ہے۔ کرونا جس کا رنگ ڈیموکریٹ اور ریپبلکن کے یہاں اپنا اپنا ہے اور وبا سے زیادہ سیاسی ہو چکا ہے اور جو امریکی معاشی نظام، امیری غریبی کے فرق کی بدبو سے امریکہ کو متعفن کر رہا ہے، ریاستوں اور وفاق کے درمیان اگر فاصلوں کی وجہ بن رہا ہے تو کہیں کسی بڑے آئینی بحران کے خدشات کے اشارے بھی دے رہا ہے۔
دانش ور کہتے ہیں، سوشلزم کمینزم اور بادشاہت کے خاتمے کے بعد کیپٹلزم عین نشانے پر ہے۔ اگر ٹریگر دب گیا تو کون جانے سال بھر یا اس سے بھی پہلے کی نئی دنیا کیسی ہو۔ مگر یہ طے ہے ریاست کو یکساں مساوی طور پر صحت و روزگار کے مواقع فراہم کیے ہی بنے گی۔ مگر ابھی تو یہ حال ہے کہ ڈھائی کروڑ لوگ بے روزگار ہیں اور جن کی ایک بڑی تعداد شام گئے باؤلا کر سڑکوں پر ٹہلنے لگی ہے۔ صرف میرے اطراف میں 22 ہزار لوگ زندگی ہارے ہیں تو پورے ملک میں 56 ہزار اس کرونا پر وارے گئے ہیں، جن میں میرے بہت سے عزیز دوست بھی شمار ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ویکسین بن بھی جائے تو دنیا کا روایتی ماحول اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا، ہاتھ ملانا گلے لگنا قصہ کہانی ہوا کہ پولیو اور ٹی بی کی ویکسین قریب سو فیصد اثر کرتی ہے تو ملیریا اور فلُو کی ویکسین ستر سے اسی فیص ہی ان امراض کا توڑ ہیں اور یہ کرونا انہی امراض کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر اس کی ویکسین بھی ستر، اسی فیصد تک ہی۔۔ تو سمجھو، جانو سو پچاس سے ہزار دو ہزار یا سپر بال اولمپک کے ہجوم خواب ٹھہرے۔ شادیاں پارٹیاں کیا رنگ روپ دھاریں گی کوئی نہیں جانتا۔ وہ جو زندگی کو بڑھانے پر نازاں تھے گردن جھکائے بیٹھے ہیں اور سوچ رہے ہیں ’یہ کیوں کر ممکن ہے کہ صدیوں کی ساری لگن محنت یوں لمحوں میں ضائع ہو جائے‘۔
بظاہر سائنس اور مذہب ایک دوسرے کا منہ تکتے نظر آتے ہیں مگر یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ قدرت اپنے نظام میں تطہیر کر رہی ہے جو ہمیشہ کی طرح انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہی ہوگی کہ آج نیویارک، کراچی، لاہور اور دلی، لندن کے آسمانوں کی شفافیت کی ہر کوئی گواہی دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے گھر ہی دفتر، سکول اور فیکٹریوں میں تبدیل ہونے جا رہے ہیں۔ مگر ابھی تو فوری مسئلہ یہ ہے کہ تین ماہ کی مارگیج کریڈٹ کارڈ بجلی پانی کے بل کی ادائیگی مستقبل قریب میں لوٹ کر آنے والے نارمل حالات پر اٹھا رکھے گئے ہیں، مگر سوچ کے مطابق سب کچھ نہ ہوا تو؟
زندگی کہیں ان وہم و گمان کے درمیاں پھنس کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں یہ لطیفے ہی مسکرانے، خود کو پرسکون رکھنے کا جواز فراہم کرتے ہیں ’کسی گاؤں میں ایک شخص شدید بیمار پڑ گیا تو اس بیمار کے اپنے گاؤں کے لوگ ہی اس کی تیمار داری کے ساتھ صحت یابی کی دعا مانگنے میں مصروف نہیں ہو گئے بلکہ آس پاس اور دور دراز کے گاؤں اور شہروں سے بھی لوگ عالم گھبراہٹ میں اس کی تیمارداری کو پہنچنے لگے اوراس بیمار کی صحتیابی کی اجتماعی دعائیں شروع کر دیں۔ جسے دیکھو وہ اس کی بیماری سے پریشان ہی نہیں، گھبراہٹ کا بھی شکار ہے کہ اسے کچھ ہو نہ جائے، اس صورت حال کو دیکھ کر ایک بھولے نے ایک سیانے سے پوچھا: چاچا اس بندے کی شدید بیماری سے یہ پورا ایک عالم کیوں پریشان ہے، ایسی کیا خاص بات ہے اس میں،طجس نے زمین آسمان ہی ہلا کر رکھ دیے ہیں؟ سیانے نے جواب دیا: پتر اس بندے نے پورے علاقے کا قرض دینا ہے جو سرمایہ کاری کے نام پر سب نے دے رکھا ہے۔ اگر یہ مر گیا تو سب ہی مر جائیں گے‘۔
معاشرے سیاسی سماجی یکجہتی سے فروغ پاتے ہیں جو امریکہ میں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹس کے درمیان بہت سے تضادات کے باوجود قائم تھی اور یہی اس ملک کی ترقی خوشحالی کا اصل راز رہا ہے مگر کرونا نے جہاں انسانی جانیں لیں، معشیت کی جڑیں ہلائیں، وہیں پہلی بار سیاسی سماجی ہم آہنگی پر بھی وار کیا ہے۔ ڈیموکریٹ کو خطرہ ہے ٹرمپ کرونا کی آڑ لے کر کہیں انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش نہ کرے جو قومی ہم آہنگی پر ایک خوفناک وار تصور کیا جائے گا۔ ٹرمپ جن کا جاب اپروول ریٹ صرف 44 فیصد ہے تو ناپسندیدگی 54 فیصد سے بھی بڑھتی نظر آ رہی ہے، امریکہ کی مشہور روایتی 16-17 انتخابی سوئنگ سٹیٹس میں بھی ٹرمپ ہارتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں۔
مگر ڈیموکریٹس میں ’تبدیلی‘ فیکٹر برنی سینڈرز جو ہلیری کو ہرانے کا سبب بنے بظاہر بائڈن کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، مگر ان کا ’تبدیلی‘ ووٹر اپنی روایتی سیاست سے بالکل ویسے ہی نفرت کرتا ہے جیسے پاکستانی تبدیلیے زرداری اور نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان کو ہی نہیں کسی پروفیشنل ڈاکو لٹیرے کو ووٹ دے سکتے ہیں مگر برنی سینڈرز نہیں تو پھر کچھ نہیں۔ جو بائیڈن جو قومی انتخابات میں ٹرمپ کے حق میں 43 فیصد ووٹرز کے مقابلے میں 48 فیصد ووٹ لیتے نظر آتے ہیں، یہ فتح ڈیموکریٹس ووٹرز کے گھر سے نکلنے سے مشروط ہے۔
برنی سینڈرز کی سوچ کی رکھوالی نوجوان انقلابی کانگریس وومن الیگزنڈریا اکاسو کی جانب سے بائیڈن کی حمایت کا فیصلہ بہت اہم ہے، مگر ابھی بہت کچھ واضح ہونا باقی ہے۔ ابھی تو یہ بھی پتہ نہیں انتخابات روایتی طریقے سے ہوں گے یا پھر نئی تعمیر ہونے والی دنیا کے طور طریقوں کے مطابق بس آن لائن ہی اب یہ تجربہ کیا جائے گا، اور اگر اس تجربے کو امریکہ کے روایتی دشمنوں نے ہیک کرلیا تو؟
اب سب کچھ آسمانوں میں کہیں دور بیٹھے یا زمین کی پاتالوں میں کوئی دربار سجائے ہوئے اس مسکراتے خدا پر اٹھا رکھا جانا چاہیے کہ اس نے جانے ہمارے حق میں کیا کیسا مستقبل طے کر رکھا ہے؟
کبھی جمال احسانی مرحوم نے کہا تھا
عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے
گھر کا گھر اٹھا ہم نے رہ گزر پر رکھا