کلاچ کے لوگ بڑے بڑے پائب لائنوں میں گزرتے پانی کو روز دیکھتے ہیں جہاں ان کی زمینوں سے پائپ لائنوں کے ذریعے گوادر شہر کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے مگر یہ مقامی لوگ صبح اٹھتے ہی اپنے مال مویشیوں پر پانی کے گیلن اور سروں پر برتنیں اٹھائے دور دور پانی کی تلاش میں ’کربلا‘ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
نیا دور نے منشیات سے متعلق ایک اسٹوری پبلش کی تھی جس میں گوادر کے اسی علاقے کلاچ سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہاں منشیات کے عادی افراد میں ایک بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے۔ کربلا کے ان مناظر میں جہاں کئی کلومیٹر دور سے پینے کا پانی لانا ہو اور گھر کے لڑکے منشیات کی لت میں نیم جان کمزور ڈھانچے بنے ہوں وہاں پانی کون لائے؟ رمضان اور اس عالمی کرونا وباء کے دنوں میں جب یہ افراد پانی کی تلاش میں کسی ٹینکی، تالاب یا ٹینکر کو دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑھتے ہوں تو کرونا ایس او پیز کا جنازہ کیسے نکلتا ہوگا؟ اور حالات کے مارے ہوئے پیاسے لوگوں کو کوئی کیسے سمجھائے کہ کوئی کرونا بھی ہے جو مارتا ہے۔
گوادر میں دیہاتوں سے لیکر شہر کے بیچوں بیچ جناح ایونیوں کی کشادہ سڑکوں کے فٹ پاتھ پر ہر جگہ پانی کی تلاش میں لاچار شہری اپنے برتنوں کے ساتھ نظر آنے لگتے ہیں۔ جہاں عورتوں کی آنکھوں کے گرد سیاہی، ہونٹ خُشک اور چہرے مرجھائے ہوئے دیکھائی دینگے۔ غربت اور مفلسی تو سنا ہے کہ انسانوں کا مذاق اڑاتی ہے مگر گوادریوں کے لئے یہاں کی بنی ہوئی کشادہ سڑکیں، سڑکوں پر نصب روشنیاں اور سی پیک باعث شرمندگی ہے ۔ کیونکہ جو اربوں کھربوں کے منصوبے دو بوند پانی نہ دے سکیں تو وہ کیا دینگے ماسوائے نفسیاتی بیماریوں، پسماندگی و محرمیوں اور شرمندگیوں کے۔۔۔۔
سی پیک کا یہ مرکزی علاقہ جس کی وجہ شہرت ہی گرم پانی ہے یہاں پانی کا بحران تقریبًا سال کے بارہ مہینے چلتا رہتا ہے کبھی ڈیموں کے بیچ کی آبادی کلانچ کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں تو کبھی خوبصورت سیاحی مقام "گنز، پشکان اور جیونی" کی آہیں۔ جیونی تو وہ بدقسمت علاقہ ہے جہاں دو دہائی پہلے پانی کی مانگ پر نکلے ہوئے پیاسے لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں اور ہرسال یہاں کی نمائندہ جماعتیں اس سانحہ میں شہداء کی یاد میں تعزیتی پروگرامز، سیمینارز اور جلسے جلوس بھی کرتے ہیں، مقامی اخبارات میں بیانات بھی چھپتے ہیں مگر لوگوں کو پانی پھر بھی نہیں ملتا۔
ریاست کی طرف سے بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے اقدامات مایوس کن ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان اور خصوصًا گوادر میں جتنا خرچہ ایک ڈمی بلوچستان اور دکھاوا والے گوادر پر کیا جارہا ، ذمہ دار ادارے ان اصل مسائل کو حل تو درکنار ان پر بات تک کرنا نہیں چاہتے۔ تمام تر وسائل تو پینافلکسز، بیانات، اشتہارات و خیرات پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ ایک ایسا خود ساختہ ڈمی ڈھانچہ تعمیر کیا جارہا ہے جہاں سب کچھ ایک مخصوص سوچ کی طے کردہ مثبت رپورٹنگ پر ہے۔ ایسے ادارے، ٹرسٹ فلاح و خدمت کے نام پر بنائے جارہے ہیں جس سے یہ لگے کہ انتظامیہ اور سرکاری ادارے تو شاہد خان آفریدی جیسے ملک کے بڑے فاؤنڈیشن کے ساتھ ملکر( سی پیک کے والی و وارثوں میں) راشن خیرات کر رہے ہیں، سیاست کی ذمہ داری ٹھیکیداروں کے سپرد ہے ۔
بلوچستان میں روزگار کے زرائع نایاب، تعلیم و صحت کا شعبہ زبوںحال، پانی و بجلی غائب اور توقع کی جاتی ہے مثبت رپورٹنگ کی جس کے لئے صحافتی اداروں سے لے کر، سیاسی و سماجی تنظیموں کا ایک ڈمی ماڈل تشکیل دیا گیا ہے اور اس پر وسائل کا بے جا استعمال کیا جارہا ہے، اگر یہ اصل مسائل پر خرچ کیئے جائیں تو شاید یہاں معیاری تعلیمی ادارے، صحت کے شعبے میں بہتری، روزگار کے زرائع پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں ان لوگوں کو کم از کم دو بوند پانی تو پینے کے لئے مل سکے گا!
گوادر کی کئی نسلیں اور دیواریں "پانی دو بجلی دو ورنہ کرسی چھوڑ دو" کے نعرے دیکھ دیکھ کر گزر گئیں مگر پانی پھر بھی نہ مل سکا۔ گوگل کی نئی فیچر ٹائم لیپس کو دیکھ کر یا کسی بزرگ شہری سے پوچھنے پر بھی جواب یہی ملے گا کہ یہ چند لاکھ انسانوں کی آبادی جب چند سو پر مشتمل تھی تب بھی پیاسہ تھا اور اب بھی پیاسہ ہے۔ گوادر کے باسیوں کی نسلیں پانی مانگتے گزر گئیں مگر پانی نہ مل سکا۔ اس شہرت کی مقبولیت ساری دنیا تک پہنچ گئی مگر گوادر کے ساحل پر آباد چھوٹی چھوٹی بستیوں اور قصبوں تک پانی نہ پہنچ سکا۔ اخباری بیانات میں بھلے گوادر سی پیک کے ماتھے کا جھومر ہو مگر حقیقت میں گوادر پیاسا ہے۔