قانون کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی یا سب کچھ مان لیا گیا: جہانگیر ترین گروپ اور وزیر اعظم کے درمیان کیا ڈیل ہوئی؟

12:41 PM, 28 Apr, 2021

نیا دور
چند دنوں سے ہاکستانی سیاست میں تبدیلی کی امید لگائے تمام پنڈت اس وقت ایک اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد سے کنفیوز ہیں کہ آخر اس ملاقات کا حاصل کیا رہا؟ یہ بات ہے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی جو کہ خود کو  جہانگیر ترین گروپ کے طور پر کہلانا پسند کرتے ہیں جنہوں نے وزیر اعظم  عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات سے پہلے دونوں اطراف نے ڈنکے کی چوٹ پر بڑے بڑے دعوے  کیئے۔ لیکن ملاقات کے بعد اس میں طے ہونے والی باتوں سے متعلق جو دعوے اور بیانات سامنے آئے ان کے بعد سیاست میں دلچسپی رکھنے والا ہر شخص ہی ابہام کا شکار ہے کہ دراصل اس ملاقات میں ہوا کیا؟

پاکستانی ذرائع ابلاغ نے کیا لکھا؟

روزنامہ جنگ نے اندرونی کہانی کے حوالے سے  لکھا کہ  جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے ملاقات میں وزیر اعظم سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے جہانگیرن ترین کے ہم خیال گروپ کی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی استدعا سے اتفاق نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اراکین سے کہا کہ مجھ سے امید رکھیں ہر صورت انصاف ہوگا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے شوگر کمیشن پر جاری تحقیقات پر کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میرا حکومت میں آنے کا مقصد نظام انصاف قائم کرنا ہے، جہانگیر ترین سمیت کوئی ذمہ دار نکلا تو قانون کے مطابق کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے واضح کر دیا کہ ساری کارروائی بلاامتیاز ہو گی، اگر کسی کا خیال ہے کہ دباؤ میں آکر تحقیقات روک دوں گا تو وہ بڑی غلطی پر ہے۔

ایکسپریس کے مطابق ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے سینیٹر علی ظفر کو جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کے تحفظات سننے کے لیے نامزد کر دیا ہے، سینیٹر علی ظفر ایف آئی اے مقدمات کا بھی جائزہ لے کر رائے دیں گے، سینیٹر علی ظفر ہم خیال گروپ کے تحفظات سن کر وزیراعظم کو بریفنگ دیں گے۔ذرائع کے مطابق سینیٹر علی ظفر کی نامزدگی پر راجا ریاض نے اعتراض کیا لیکن وزیراعظم نے اعتراض کو مسترد کردیا اور کہا کہ آپ میں سے بہت لوگ بعد میں تحریک انصاف کا حصہ بنے، یہ ذہن میں رکھیں کہ میں صرف وزیر اعظم رہنے کے لیے حق کا ساتھ چھوڑ دوں ایسا نہیں ہوگا۔ راجہ ریاض نے بتایا کہ ہم نے شہزاد اکبر سے متعلق تحفظات وزیراعظم کے سامنے رکھے، وزیراعظم نے یقین دہانی کروائی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے اور معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں، میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دونگا۔ راجہ ریاض نے کہا کہ ہمیں اپنے کپتان پر اعتماد ہے کہ وہ انصاف کریں گے۔

بی بی سی نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے حامی ارکانِ پارلیمنٹ کے خدشات دور کرنے کے لیے وقت مانگ لیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ خدشات کب تک دور کیے جائیں گے۔

اس ملاقات کے حوالے سے اب تک کل ملا کر کیا بیانئے ہیں:

اس ملاقات کے حوالے سے اب تک دو دعوے سامنے آچکے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جو بھی ہوجائے قانون کے آڑے کوئی نہیں آئے گا۔ اور دوسرا یہ کہ جہانگیر ترین گروپ کے تمام مطالبات کو مان لیا گیا ہے۔

تو پھر اصل حقیقت کیا ہے؟

 ابھی تک کی معلومات کے مطابق ارکان پارلیمنٹ نے شہزاد اکبر کی جہانگیر ترین کے خلاف مقدمہ کی تفتیش میں مبینہ مداخلت کے بارے میں شکایات کے انبار لگا دیے۔ تاہم وزیر اعظم نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور صرف یہی کہا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقات پر کوئی اثر انداز نہیں ہو گا۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران جہانگیر ترین کے حامی ارکان کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے سینیٹر علی ظفر کو اس معاملے کو دیکھنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد وہ مزکورہ ارکان پارلیمنٹ کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔ میڈیا سے گفتگو میں راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ انھوں نے جہانگیر ترین کے خلاف درج مقدمے میں وزیرِ اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے کردار کے بارے میں بھی بتایا۔ تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ وزیرِ اعظم نے شہزاد اکبر کے خلاف کیا کوئی کارروائی کرنے کے بارے میں کچھ کہا جس کا راجہ ریاض نے کوئی جواب نہیں دیا۔مختصر گفتگو کے بعد جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ واپس چلے گئے۔


شوگر کمیشن کے سربراہ کا تبادلہ: 


ڈاکٹر رضوان کو اچانک ان کی اس ذمہ داری سے ہٹایا گیا ہے۔ ایسا وزیر اعظم عمران خان سے جہانگیر خان ترین کے حامی 30 سے زائد پارلیمنٹیرینز کی منگل کے روز ایک طے شدہ ملاقات سے کچھ گھنٹے قبل کیا گیا ہے۔ اس ملاقات میں وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے حامی ارکانِ پارلیمنٹ کے خدشات دور کرنے کے لیے وقت مانگا ہے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ خدشات کب تک دور کیے جائیں گے


حاصل گفتگو کیا؟


بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ  حکومت اور جیانگیر ترین کے درمیان فی الوقت شوگر کمشین کے سربراہ کی تبدیلی کے ٹوکن پر ڈیل ہو گئی ہے۔ تاہم مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید جہانگیر ترین کی گردن ابھی تک شکنجے سے نکلی نہیں ہے۔ اور آنے والے دنوں میں یہ معاملات مزید سنگینی کی طرف جا سکتے ہیں جس کا دارو مدار اس پر ہوگا کہ جہانگیر ترین پنجاب میں تحریک اںصاف کے لیئے کوئی مشکلات پیدا کرنے کی کوشش میں ن لیگ سے روابط  بڑھاتے ہیں یا نہیں۔

مزیدخبریں