کابینہ اجلاس کے فیصلوں کے حوالے سے چینلز وہی رپورٹ کریں جو کہ وزیر اطلاعات بتائیں: پیمرا کا ہدایت نامہ

07:14 PM, 28 Apr, 2021

نیا دور
 

پیمرا کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن سامنے آ یا ہے جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کابینہ اجلاس ابھی جاری ہوتے ہیں کہ  پاکستان کا پرائیویٹ میڈیا ان اجلاسوں  کی غیر مصدقہ اور قیاس آرائیوں پر مبنی خبروں  کو غیر رسمی زرائع سے اکھٹا کر نے کے بعد اس وقت ہی  نشر کرنا شروع کر دیتا ہے۔  یہ خبریں حقائق سے عاری ہوتی ہیں۔ اور یہ عمل جعلی اورغیر مصدقہ خبروں کے پھیلاؤ کا موجب بنتا ہے۔  جس کی وجہ سے اصل معلومات دب کر رہ جاتی ہیں یا مکمل طور پر مسخ ہو جاتی ہیں اور ناظرین میں ابہام پیدا ہوتا ہے

قیاس پر مبنی خبروں کی اشاعت پیمرا کے قانون لی شق 4۔(1) کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس لیئے پیمرا چینلز کو ہدایت کرتا ہے کہ کابینہ اجلاسوں میں لیئے گئے فیصلوں کے بارے میں خبریں تصدیق کے بعد ہی چلائی جائیں۔ اور اس مقصد کے لیئے اس پریس بریفنگ پر انحصار کیا جائے جو خود وزیر اطلاعات یا کوئی اور ممبر کابینہ میڈیا کو دے۔

اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ نیوز اور کرنٹ افئیرز کا مواد نشر کرنے والے چینلز سے امید کی جاتی ہے کہ وہ پیمرا قانون 2015 کی پاسداری کریں گے۔

یاد رہے کہ پیمرا کی جانب سے یہ نوٹیفکیشن اپنی نوعیت کا کوئی پہلا نوٹیفیکیشن نہیں ہے۔ بلکہ موجود دور حکومت میں پیمرا نے ایسے دیگر احکامات بھی جاری کیئے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آئے روز میڈیا کے لیئے بات کرنے کی جگہ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

پیمرا کی جانب سے حال ہی  اپنی نوعیت کے کونسے منفرد نوعیت کے نوٹیفکیشن بھیجے گئے؟

پیترول کی قیمتیں بڑھانے لگے ہیں، چینلز مثبت رپورٹنگ کے ذریعیئے عوام کے ذہن تیار کرے۔  

نیا دور کی رپورٹ  بتاریخ 24 مارچ 2021 کے مطابق  پیمرا کی جانب سے  پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز، اخبارات اور ریڈیو سٹیشنز کو ایک جاری کردہ  ہدایت نامے میں ان سے تحکمانہ انداز میں تعاون کی درخواست کی گئی ہے تاہم خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تعاون در اصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ان کا معاشی قتل کرنے کے مترادف ہے۔

ہدایت نامے کے مطابق چینلز سے پہلے گلہ کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان پاکستان کے عوام کو مسلسل سستا پیٹرول اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات فراہم کر رہی ہے۔ لیکن  اس حوالے سے کوئی خاص بیانیہ پاکستان کے میڈیا پر دکھائی نہیں دیتا۔ کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت دنیا بھر میں پیٹرولیم کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود پیٹرول کی قیمت کو کم سے کم تر رکھے ہوئے ہے حتیٰ کہ  (حکومت سمجھتی ہے کہ )خطے کے دیگر ممالک کی نسبت یہاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت کم ہیں۔ چینلز حکومت کی پیٹرولیم قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کارکردگی پر موافق بیانیہ   قائم کریں، اسکی ترویج کریں اور یہ بھی کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے حکومت جو اضافہ پیٹرول کی قیمتوں میں کرنے لگی ہے اس پر چینلز عوام کو ذہنی طور پر تیار کریں.

  چینلز نیب کے زیر تفتیش کیسز پر چینلز بات نہ کریں

اسی روز ایک اور نوٹیفکیشن سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ چینلز کے کرنٹ افئیرز پروگراموں میں نیب کے خلاف یکطرفہ، مواد سے عاری بیانیہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل ایک ریاستی ادارے کو متنازعہ بنانے اور بے اثر کرنے کے مترادف ہے۔ ان پروگراموں میں نیب کے خلاف تو بہت مواد ہوتا ہے تاہم اس سب پر نیب کا موقف نہیں لیا جاتا جو کہ صحافتی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ اس معاملے پر عدالت عظمٰی کے حکم کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چینلز انکے پروگراموں کے میزبان اور مہمان عدالت کے ہاں زیر سماعت کیسز یا پھر کسی اتھارٹی کے زیر تفتیش کیسز پر رائے نہیں دے سکتے۔

ہدایت نامے میں کہا گیا یے کہ یہ پیمرا قانون کی شقات کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ پیمرا کی جانب سے اس ہدایت نامے میں چینلز کو پابند کیا گیا ہے وہ مواد سے عاری اور تعصب پر مبنی آرا سے لبریز ان پروگراموں کی نشر و اشاعت پر ایکشن لیں۔ اپنے پروگراموں کے مواد پر ادارتی تحقیق و چھان بین کو مزید سختی سے لاگو کریں۔

کیا پاکستان میں صحافت کا گلا گھونٹنے کے لیئے پیمرا اختیار سے تجاوز کر رہا ہے؟

مثال کے طور پر پیمرا نیب کے زیر تفتیش کیسز پر بات کرنے سے ٹی وی چینلز کو روک چکا ہے لیکن اپوزیشن کی جانب سے نیب پر سیاسی انجنیئرنگ کا الزام لگتا ہے اور اسے ریاست کی جانب سے روا رکھے جانے والے سیاسی جبر کا ایک آلہ کار قرار دیا جاتا ہے۔ اور قانونی ماہرین کے مطابق نیب  سمیت کسی بھی ایسے ادارے کی کارکردگی پر بات کرنا جو کہ ملکی سیاست میں عمل دخل کرتا ہے، بنیادی آئینی حق ہے۔ دوسری جانب  اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ہیمرا کی جانب سے کون کیا کرے گا پالیسی پر اظہار برہمی بھی سامنے آیا تھا۔

عدالت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) کی جانب سے ٹی وی اینکر پرسنز کے دوسرے پروگرامز میں بطور تجزیہ کار شرکت پر پابندی کے نوٹیفیکیشن پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پیمرا کو تحریری موقف جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔  اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس بات کا اختیار کس نے دیا کہ آپ کہیں کہ ایک اینکر کسی دوسرے پروگرام میں نہیں جائے گا؟

کیا مقدر حلقے پیمرا سے اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں جن کا مقصد صرف سیاسی ہوتا ہے؟

اس حوالے سے حال ہی میں گولی کا نشانہ بننے والے سابق چئیرمین پیمرا ابصار عالم کی ٹویٹس قابل ذکر ہیں جن میں انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل  فیض حمید کے بارے میں انکشاف کیا کہ انہوں  نے ان سے تحریک لبیک کی خلاف قانون کوریج پر 92 نیوز کو بند کرنے پر نہ صرف گلہ کیا گیا بلکہ اسکو بحال کرنے کے لیئے دباؤ ڈالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ  نومبر 2018 میں جب میں چیئرمین پیمرا تھا، چینل 92 کو نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی پر لائیو سیکورٹی آپریشن دکھانے اور سیٹلائٹ وین کی سہولت دھرنے والوں کو مہیا کرنے پر بند کر دیا گیا جنرل فیض نے مُجھے فون کر کے کہا کہ یا تو چینل 92 کو کھول دیں یا باقی سب چینلز بھی بند کر دیں۔ میں نے کہا دونوں کام نہیں ہو سکتے، کُچھ ہی دیر بعد وفاقی حکومت نے اپنے اختیار کے تحت تمام چینلز بند کرنے کا حُکم نامہ بھیج دیا۔کوئی پوچھے گا جنرل فیض سے کہ کیا مفاد تھا جو آگ لگانے اور بھڑکانے والے چینل92 کو اس وقت کھلوانا چاہتے تھے؟ سمجھ آیا چینلز اور اینکرز کیسے چلتے، بند ہوتے؟

https://twitter.com/AbsarAlamHaider/status/1383831491864498179

 

 

 

 
مزیدخبریں