لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان نے درخواست پر سماعت کی۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے فاضل عدالت کے حکم پر جواب عدالت میں جمع کرا دیا۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ای وی ایم مشین کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ دو مرتبہ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹس پارلیمنٹ کو پیش کیں۔ تمام ووٹرز آئی ٹی کی ٹیکنالوجی سے آشنا نہیں ہیں۔ ٹیکنیکل رپورٹس بھی الیکشن کمیشن کے سامنے ہیں۔ تجرباتی ایولیویشن کا مرحلہ ابھی بھی جاری ہے۔ ای وی ایم میں بہت سی تکنیکی ایشوز ہوتے ہیں۔
جسٹس شجاعت علی خان نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے نادرا اور آئی ٹی کے ساتھ مل کر کیا اقدامات کئے۔ عدالت کو تفصیل سے تسلی بخش جواب دیا جائے۔ ابھی تک سب کچھ زبانی جمع خرچ کیا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے جواب سے پتہ چل گیا کہ دو مرکزی ادارے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ وزارت قانون اور اوورسیز کی وزارت کے نمائندوں کا پیش نہ ہونا عدالتی فیصلے میں لکھا جائے گا۔ کیوں نہ اس عدالت کے فیصلے کو وزیراعظم کے پاس بھجوا دیا جائے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ای وی ایم مشینوں اور انٹرنیٹ کی سہولیات کیلئے وفاقی وزارت خزانہ کو لکھا ہے۔ فاضل عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نادرا کچھ نہیں کر رہا،آپ کبھی بنگلا دیش کو اور کبھی افریقی ممالک کو کچھ دے رہے ہیں۔ اپنے ملک کیلئے کچھ نہیں، ڈی جی نادرا تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔ اگر رپورٹ کاغذ کا ٹکڑا ہوا تو ڈی جی نادرا اپنے عہدے پر نہیں رہے گا۔ اوورسیز پاکستانی باہر بیٹھ کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے پیسوں سے ہی ملک چل رہا ہے اور بڑے افسر صرف قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت عید کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔