عمارت جن چوکور تصویروں سے مل کر بنی ہے ان میں سے ہر ایک کو برابر بٹھانے کے بجائے تخلیق کار کی سوچ کے مطابق قاعدے سے بالائی، درمیانی، نچلی سطح پر جگہ دی گئی ہے۔ زیریں سطح پر تصاویر کی تعداد پورے کینوس میں سب سے زیادہ بنتی ہے۔ بہت بڑے علاقے پر پھیلے کسی پیچیدہ اور وسیع نیٹ ورک کے کنٹرول کے مرکز کو دکھانے اور سمجھانے کیلئے پابلو پکاسو نے عمارت کی چھت پر ایک عصا ایستادہ کیا ہے جس پر کسی پرچم کی جگہ آہنی ٹوپی جھول رہی ہے۔ وہ ایک آرٹسٹ ہے، رنگ اور نفیس تصویروں سے ان چیزوں کو پیش کرتا ہے جو حقیقت دیکھ کر لوگوں کے ذہنوں میں پلتی ہیں لیکن انہیں باہر نکلنے کے راستے نہیں ملتے۔ اس فن پارہ پر رائے قائم نہ کریں، دیکھیں کہ فنکار کی آنکھ انتشار کو دیکھتی کیسے ہے۔ وہ عمارت کی چھت پر ملک کے پرچم کو یا آئین کی کتاب کو بھی لہرا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔
تصویر کے پس منظر میں دنیا متنوع دکھائی دیتی ہے جس کو چاروں جانب سے بل کھاتی ایک لکیر نے گھیر رکھا ہے۔ ایک سرے پر پہاڑوں کا ہمالیائی سلسلہ نظروں میں آتا ہے جبکہ دوسرے سرے پر بلوچستان کی ایران کو لگنے والی ریتیلی سرحد تصویر دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہے۔ ان ریگ زاروں میں تیل سے لدی زنگ خوردہ جاپانی پک اپ گاڑیاں سرحد پار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تصویر کے اس حصے میں پکاسو کی مشہور پینٹنگ گورنیکا کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ جب اپنے اسپانوی اتحادی جنرل فرانکو کی درخواست پر ہٹلر کی نازی فضائیہ نے سپین کی گورنیکا نامی چھوٹی سی بستی پر بم برسائے تھے۔ اس بمباری میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بلوچستان کی تصویر میں لگتا ہے لوگ لاغر اندام ہیں، کم خونی، کم خوراکی کے شکار، قحط زدگان کی طرح۔ چہرے مرجھائے ہوئے ہیں۔ شادمان شہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہے۔ درخت بے آب و خاک آلود اور پژمردہ ہو چکے ہیں۔ تصویر کا یہ حصہ انتھروپولوجی کے ماہرین کی دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے۔ لوگ گروہوں کی صورت چل پھر رہے ہیں۔ گمان گزرتا ہے پابلو پکاسو نے انتہائی مہارت سے ان گروہوں کے اردگرد ایک آسیبی ہالہ کھینچا ہے جو چلتے پھرتے لوگوں کو دکھاتا اور پھر نظروں سے اوجھل کرتا ہے۔ یہ لوگ کہاں غائب ہو جاتے ہیں، ہم سمجھ نہیں پاتے۔ جس فنکار نے تصویر کا یہ حصہ خط کشید کیا محض وہی گمشدگی کا معمہ سمجھا سکتا تھا لیکن وہ سالوں ہوئے گھروں کو واپس نہ لوٹنے والے گمشدگان کی طرح شاید ہی کوئی اتہ پتہ رکھتا ہو۔
'جو لوگ 10، 10 سال ہوئے اٹھائے گئے ہیں، میرا نہیں خیال وہ واپس آئیں گے'۔ تصویر میں لوگوں کی گمشدگی کے معمے پر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پاکستان شناس اس دُوربیں مصنفہ نے مزید کہا؛ 'بلوچوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ریاستی سطح پر ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ ملک دشمن ہیں۔ 75 سال سے یہی ہوا ہے'۔ یہ مصنفہ ریاست کو ایک گاڑی سے تشبیہ دیتی ہے۔ 'جو ریاست کی گاڑی کو چلانے والے ہوتے ہیں، ان کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ نہیں جاننا چاہتے کہ بلوچ کیا ہیں۔ ریاست میں بلوچ دکھائی نہیں دیتے ہیں جیسا کہ پنجاب یا خیبرپختونخوا ریاستی ڈھانچے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نیشنل فنکشنز جو کبھی کبھار ہوتے ہیں، ہمیں وہاں ناچ گانوں کے موقع پر بلوچ ریفرنس ملتا ہے۔ یہ بلوچ کو ملی پروگراموں میں استعمال کرتے ہیں۔ اس میں بلوچوں کا کوئی قصور نہیں'۔
بلوچستان میں پابلو پکاسو نے سرحدوں کو تہس نہس کرنے والی ایک سڑک دکھائی ہے جو تصویر کے اس حصے کو ہمالیائی قدر بخشتی ہے۔ 'یہ حیران کن نہیں؟' میں سڑک دیکھ کر سوال کرتا ہوں۔ 'سی پیک کے آغاز پر ریاست کو جو رسائی ملی تھی کہ قربتیں بڑھ جاتیں لیکن بلوچوں کو اٹھایا گیا، مارا پیٹا گیا، جس سے قربتوں کی جگہ دوریاں مزید بڑھ گئیں'، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ سرگوشی کرتی ہے۔ 'آپ کسی کے پیارے کو اٹھاتے ہیں، وہ ریاست سے کیسے محبت کرے گا؟' مصنفہ نے مزید کہا۔
گمشدگیوں کا سلسلہ اپنے ساتھ خوف لاتا ہے۔ لاغر اندام لوگ ڈر جاتے ہیں۔ سہم جاتے ہیں۔ وہ وقت کو سمجھ نہیں پا رہے تھے، کیا ہونے والا ہے۔ پابلو پکاسو کے آسیبی ہالے نے نظروں سے اوجھل، خوردہ و ہضم شدہ گمشدگان کو نگلنے کے بعد لاشیں بنا کر اگلنا شروع کر دیا۔ خاک آلود درختوں کے نحیف سائے میں بیٹھے لوگ سمجھ گئے، ان کا سامنا زندگی سے نہیں۔ خوف کے مارے لوگ ردعمل میں بے خوف ہونا شروع ہو گئے۔ عائشہ صدیقہ کہتی سنائی دیتی ہیں؛ 'بلوچ مسلح گروہوں کی جانب سے خودکش وار بھی اس لئے کئے جا رہے ہیں کہ ریاست نے کوئی آپشن نہیں چھوڑا۔ وہ اپنی ضروت کے مطابق نئے راستے اپناتے ہیں۔ اپنی سرشت بدل ڈالتے ہیں۔ ان حالات میں لوگ شیطان کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے سے گریز نہیں کرتے'۔ وہ تصویر کو دیکھتے ہوئے کہے جا رہی تھیں۔
پابلو پکاسو کی پینٹنگ کے چوکور حصوں کو ہم الگ الگ کرتے ہیں۔ ایک ڈبے میں چھوٹی سی پرچی نظر آتی ہے۔ یہ 2 افراد کی گمشدگی بیان کرتی ہے۔ کاغذ پر آج سے 1 سال اور 9 مہینے پہلے کی یعنی 25 جولائی 2021 کی تاریخ درج ہے۔ وقت دوپہر لکھا ہوا ہے اور مقام کوئٹہ۔ شہر میں سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ ھدی منوجان روڈ پر واقع ایک گھر میں آسیبی ہالہ داخل ہوتا ہے۔ 31 سالہ نوجوان سجاد بلوچ نگل لیا جاتا ہے۔ وہ پہلا شکار نہیں۔ اس گھر میں آسیبی ہالہ پہلے بھی کودا تھا، 2 مہینے قبل مئی کے مہینے کی 31 تاریخ تھی۔ پہلی مرتبہ اس نے 31 سالہ ظہور احمد کو سمنگلی روڈ پر کڈنی ہاسپٹل کے سامنے سے اڑا لیا تھا۔ یہ پرچی بتانے کی کوشش کرتی ہے۔ سجاد اور ظہور جب 21 سال کے تھے، آسیبی ہالہ نے ان کا اتہ پتہ معلوم کر لیا تھا۔ ان کے بہنوئی فیصل مینگل کی زندگی کا سلسلہ روک دیا گیا تھا۔ تاریخ 10 دسمبر 2011، مقام کراچی تھا۔ 'بلوچوں کو لاپتہ کرنا زیادتی ہے۔ ریاست کا یہی بہانہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان کی وجہ سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی بات ہے تو ان کو اٹھا کر غائب کرنے کے بجائے عدالت سے رجوع کریں۔ گمشدگی پر ریاست کی منطق درست نہیں ہے'۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ سجاد اور ظہور کا پرچہ دیکھ کر پینٹنگ میں تصحیح کرنا چاہتی ہیں۔
سٹوڈیو کے فرش پر ہاتھوں کے نشان ہیں، بلی کے پنجوں کی طرح۔ جیسے کوئی فرش پر پیروں کی جگہ رنگ خوردہ ہاتھوں کے سہارے چلا ہو۔ آسیبی ہالہ نے لوگوں کو توقع سے زیادہ نگلنا، اگلنا شروع کردیا تھا۔ اپنی تخلیق کا پاگل پن دیکھ کرفنکار کا تخیل چکرا گیا ہے۔ وہ دل شکستہ ہے، اب پیروں کے سہارے چلنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کے اعصاب تھک گئے ہیں۔ وہ تھکا ہارا کمرہ نمائش کے ایک کونے میں کسی بچی سے باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کشادہ چہرہ، پریشان حال گہری آنکھیں، گویا وہ بچی بچپن سے محروم ہوئی ہو۔ 'یہ سمی دین محمد نہیں جو اسپانوی آرٹسٹ سے باتیں کر رہی ہے؟' کسی نے نمائش دیکھتے اپنے ساتھی سے پوچھا۔
'ہمارے گھر اندھیرا نہیں تھا۔ بابا لاپتہ ہوئے تو روشنی بھی چلی گئی'، وہ پکاسو سے کہتی ہے۔ 'تم سنتے ہو؟' وہ کہے جاتی ہے۔ 'بتا سکتے ہو، وہ کیسا ہے؟ کھانا اسے قاعدے سے ملتا ہے؟ سردی میں گرم کپڑوں سے محروم تو نہیں؟ گرمی کی آگ میں جھلس تو نہیں رہا؟ عدلیہ، حکمراں جو وعدے کرتے ہیں، وہ اپنے آپ کیوں مر جاتے ہیں؟ آپ میرے گھر کی تصویر کیوں نہیں بناتے جہاں میرے بابا کی قیمتی چیزیں رکھی تھیں، اس کی یادیں بستی تھیں، اس کی خوشبو گھر بھر میں پھیلی ہوئی تھی، اس کے پہننے اور اوڑھنے کی ہر چیز اس آشیانے میں رکھی تھی، اس پر قبضہ کر لیا گیا۔ وہ گھر کسی تصویر میں دکھائی نہیں دیتا۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، تم ابو کے کلینک آئے تھے، تمہیں یاد ہے؟ اس بات کو 14 سال ہوئے۔ اس دن کے بعد وہ واپس گھر نہیں لوٹے۔ وہ کہاں ہیں؟ ہم اس کی گمشدگی پر جیتے جی مر گئے'۔
تھری ڈی تکنیک میں تصویر دکھانے پر ایک شادی کارڈ بھی دکھائی دیتا ہے۔ توڑا مروڑا، پھٹا ہوا۔ کارڈ پر 16 سال پہلے کی تاریخ لکھی ہوئی ہے، سن 2007 کی۔ 'ہم نے 4 سال ساتھ گزارے'، کارڈ کی پشت پر کسی نے لکھا تھا۔ یہ ایک نوٹ تھا، شاید کسی نے اپنے شوہر کی موت کے دن کچھ لکھنا چاہا تھا۔ سطریں چھوٹی چھوٹی تھیں، جن سے میں نے کسی کو پیش آئے واقعے کو سمجھنے کی کوشش کی۔
'اس کی زندگی کی آخری شب تھی۔ مجھے لگا کہ ساری رات کوئی ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا ہے'۔
'صبح ساڑھے 8 بجے وہ گھر سے نکلا۔ ڈاکٹر نے سب سے پہلے مجھے اطلاع دی'۔
'وہ بتا رہا تھا کہ اس کی ٹانگ میں گولی لگی ہے'۔
'میں کوئٹہ میں تھی، شام کو مجھے پتہ چلا، اب وہ نہیں رہا'۔
'دوسری صبح وہ میرے سامنے تھا، مُردہ، چہرے پر وہی دائمی مسکراہٹ تھی'۔
'آپ ان کو رخصت کریں'۔ اس کے بڑے بھائی نے کہا۔
'میں ان کو گلے لگانا چاہتی ہوں'۔ میں نے ان سے کہا، بھائی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
'وہ مجھے اور ان کو تنہا چھوڑ گئے، میں نے اسے گلے لگایا، اس کی پیشانی کو چوما'۔
آخر میں 10 دسمبر دو ہزار 2011 کی تاریخ درج تھی۔
دستخط: سعیدہ بلوچ
یہ فیصل مینگل کی بیوہ ہے۔ تصویر میں فیصل کو امریکی قونصل خانے سے نکلتے، کسی جرمن آرگنائزیشن میں داخل ہوتے دکھایا گیا ہے۔ سابق نوآبادیات کی طرح پاکستان میں بھی غیرملکی سفارت خانوں میں کام کرنا پرکشش اور مراعات یافتہ ملازمت سمجھی جاتی ہے۔ 'دھمکیاں ملی تھیں لہٰذا فیصل نے سفارت خانے کی ملازمت چھوڑ دی تھی'، سعیدہ کہتی ہے۔ فنکار نے چادر کے ایک کونے میں فیصل کو سفید کپڑے میں لپٹا دکھایا ہے۔ شوہر کے قتل کے بعد ان کی بیوہ سعیدہ بلوچ ایک بے خوف عورت بن کر سامنے آتی ہے۔ پہلے سیاست میں سرگرم نہیں تھی۔ شوہر کا قتل ہو گیا، بھائی اور بھانجا لاپتہ ہو گئے، 10 سال کی گزشتہ افت و خیز نے ان کو سنجیدہ سیاسی کارکن بنا دیا ہے۔ 'بلوچ شورش کو بلوچ لیڈرشپ نے اس قدر مضبوط نہیں کیا جتنا ریاست نے اپنے اقدامات سے کیا ہے'، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
میں پابلو پکاسو کی ہنرمندی کا قائل ہو جاتا ہوں۔ تصویر کے ایک کونے میں، مجھے گمان گزرتا ہے، افغانستان اور ایران کی سرحدوں کے نزدیک پڑنے والے کوئٹہ شہر میں ایک کیمپ کا منظر دکھایا گیا ہے جہاں عبدالحمید زہری کی بیٹی اور دیگر عورتیں اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے، ایک ہی بات دہرائے چلی جا رہی تھیں؛ 'ہمارے پیارے واپس کر دو'۔