تفصیلات کے مطابق وزارت قانون و انصاف نے تین ججز کی خدمات ان کے اداروں کو واپس کردی ہیں، ہائی کورٹ رجسٹرار کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق جن ججز کی خدمات واپس لیں ان میں احتساب عدالت کے ججز مشتاق الہٰی اور محمد نعیم ارشد جبکہ انسداد منشیات عدالت کے جج مسعود ارشد شامل ہیں۔
جج مسعود ارشد اسپیشل کورٹ لاہور تعینات تھے، جج محمد نعیم ارشد احتساب عدالت نمبر 5 لاہور میں خدمات سرانجام دے رہے تھے اور جج مشتاق الہی احتساب عدالت نمبر 1 لاہور میں تعینات تھے۔
وزارت قانون و انصاف نے تینوں ججز کی خدمات واپس کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ سے متبادل ججز کیلئے نام مانگ لیے ہیں۔
جن ججز کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کی گئی ہیں وہ خصوصی عدالتوں میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سلمان شہباز اور سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کے خلاف کیسز کی سماعت کر رہے تھے۔
احتساب عدالت کے جج محمد نعیم ارشد شہباز شریف کے خلاف رمضان شوگر ملز، مریم نواز کے خلاف چوہدری شوگر ملز، حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ اور رمضان شوگر ملز، سلمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیسز کی سماعت کر رہے تھے جبکہ مسعود ارشد رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کے کیس کی سماعت کر رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کرنے والے جج نے آج 28 اگست سماعت کے دوران واٹس ایپ پر احکامات موصول ہونے کے بعد کیس کی مزید سماعت سے انکار کر دیا تھا۔
رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ کی مدت ختم ہونے اور ضمانت کے حوالے سے سماعت جاری تھی کہ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے کیس پڑھنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔ وکیل کی درخواست پر عدالت نے سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ دے دیا۔ تاہم سماعت کے دوبارہ آغاز پر جج مسعود ارشد نے کمرہ عدالت میں بتایا کہ مجھے ابھی واٹس ایپ میسج موصول ہوا ہے اور ہائی کورٹ نے مجھے کام کرنے سے روک دیا ہے جبکہ میری خدمات بھی واپس کر دی گئی ہیں۔ اس کے بعد جج نے رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 7 ستمبر تک توسیع کردی۔
اس اچانک حکومتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر واٹس ایپ انصاف نامنظور کا ٹرینڈ ٹاپ کر رہا ہے، کچھ ٹویٹس آپ بھی پڑھیں۔