جبکہ دوسری جانب ہم نے دیکھا ہے کہ اس جنگ کی ابتدا سے لیکر آج تک بڑے بڑے چینل پر بیٹھے ہوئے اینکرز نے پشاور کے صحافیوں کی خبروں کو ہی تجزیئے کی شکل دیتے ہوئے لکھا ہے اور اپنے پروگرامات کئے ہیں۔ یہ بڑے صحافی زمینی حقائق سے باخبر نہیں۔ جو پشاور کے صحافیوں نے رپورٹ کیا وہی ٹی وی چینلز کی زینت بنا۔ افغان امور پر لکھنے اور بولنے والے بڑے نام ہمارے پشاور کے صحافی بھائیوں کی وجہ سے ایک مقام پر پہنچے ہیں کیونکہ یہ اُن چینلز کے سربراہ ہوا کرتے تھے اور ہمارے صحافی بھائی اُن کے بیورو آفسز میں کام کیا کرتے تھے تو لازم تھا کہ وہ وار آن ٹیرر پر ہی کام کرتے تھے ۔ایک چینل کے سربراہ تو صرف افغان امور پر ہی کام کرتا تھا وہ رپورٹس جو اُس کے چینلز کے رپورٹر تیار کرتے وہ اسی چینل پر نہیں چلا کرتی تھیں بلکہ غیر ملکی میڈیا پر فروخت کردی جاتی تھیں ۔اس جنگ میں پشاور سے عقیل یوسفزئی، رحیم اللہ یوسفزئی، محمود جان بابر، سلیم صافی، آصف نثار غیاثی، فداعدیل، فداخٹک، ضیاالحق، عبداللہ جان، فرزانہ علی، ظاہر شاہ شیرازی، مسرت اللہ جان، رفعت اللہ اورکزئی اور فخر کاکاخیل سمیت بہت سے دیگر ساتھیوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا، کالم لکھے، فیچر لکھے، ٹی وی پروگرامز کئے ۔ کتابوں کے تراجم کئے۔یہ مذکورہ صحافی اگر آج کے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ٹی وی پر آکر بیٹھ جائیں اور تجزیہ کاری کریں تو تک بنتی ہے مگر ان کے علاوہ وہ لوگ جنہوں نے اسلام آباد، لاہور، کراچی میں صرف کورٹ اور سیاسی بیٹ سمیت کرائم، ایجوکیشن پر کام کیا ہو وہ اگر اخبارات میں کٹ کاپی پیسٹ کرکے لکھیں، تھوڑی بہت تاریخ افغانستان جس سے گوگل بھرا پڑا ہے وہ الفاظ کے ہیر پھیر سے لکھیں اور عوام کے سامنے تجزیہ کریں تو یہ صحافت کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔کیونکہ افغانستان کو پشاور کے صحافیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ یہاں کے صحافیوں کو افغانی طالبان، پاکستانی طالبان، اور سارے علاقے کی تہذیب اور کلچر سے آگاہی ہے وہ اس پر بہتر تجزیہ کرسکتے ہیں ۔آج کے ذبیح اللہ مجاہد کو پشاور کے صحافی 2005 سے جانتے ہیں جبکہ باقیوں نے اب ان کا نام سن لیا ہے ۔اور ان بڑے چینلز پر بیٹھ کر اُن سے انٹرویو لے کر اپنی دکانداری اور فین فالورز بڑھارہے ہیں ۔کیونکہ بڑے چینل پر بیٹھ کر کوئی بڑا صحافی نہیں بن جاتا جس طرح ہمارے بڑے ادارے کے ریٹائرڈ افراد افغانی امور کے ماہر بن کر 2001سے ہمیں پکا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری میڈیا کے لئے پالیسی بنی تھی کہ کوئی نا کوئی بحیثیت انالسٹ رات کو میڈیا چینل پر بیٹھ کر شگوفے چھوڑے گا ۔اب وہ وقت گزرگیا ہے اب دور سوشل میڈیا کا آگیا ہے اب ہر کوئی صحافی، تجزیہ نگار ہے ۔ہمارے پشاور کے دوستوں نے سوشل میڈیا پر اسی موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور ازراہ تفنن پوسٹ کیا ہے کہ میں نے طورخم دیکھا ہے ۔کارخانو مارکیٹ تک گیا ہوں ۔افغانیوں کے تہذیب اور ثقافت کو سمجھتا ہوں ۔ایک دو آرٹیکل افغانستان کے حوالے سے لکھے ہیں تو کیا میں افغان کا ماہر ہوں؟ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر کوئی جو افغان امور کا ماہر بن کر اپنا چورن میڈیا پر بیچ رہا ہے وہ افغان امور کا ماہر نہیں اس لئے افغان امور کے اصل ماہرین کو پہچانیں۔
افغانستان کے بارے میں میڈیا کا بازار: ناظرین اصل ماہرین افغان امور کو پہچانیں
07:25 PM, 28 Aug, 2021
جب سے امریکی فوج نے افغانستان سے انخلا کا آغاز کیا ہے اُس دن سے سوشل میڈیا پر افغانستان کے حوالے سے بہت سی خبریں زیر گردش ہیں۔ امریکہ اور افغانستان پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور یہ وہ موضوع ہے جس پر پشاور سمیت پشاور سے دور بسنے والے صحافیوں نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو بہت سے پشاور کے صحافی غیر ملکی میڈیا ٹیموں کے ساتھ منسلک ہوگئے اور رپورٹر، فوٹوگرافر اور ٹرانسلیٹر یا گائیڈ کے طور پر کام شروع کردیا۔ جس کے لئے انہیں خطیر رقم فراہم کی جاتی تھی۔ ایسے صحافی پشاور میں خوشحال صحافی تصور کئے جاتے تھے جن کا ایک رعب ہوتا تھا۔ اب بھی وہ رعب و دبدبہ قائم ہے جس کی بنیادی وجہ غیر ملکی میڈیا کی جانب سے انہیں اچھی رقم کا ملنا تھا۔ باقی میڈیا میں تو صحافیوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ان غیر ملکی اداروں کے صحافیوں نے اپنے یار دوستوں کے لئے بھی جگاڑ لگا کر انہیں ملازمتیں دی ہیں۔ اس وقت سے جتنے بھی صحافی ان غیر ملکی چینلز کے ساتھ منسلک ہوئے وہ ابھی تک اُن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور اپنے اداروں کی جانب سے غیر ملکی دورے بھی کرچکے ہیں ۔کیونکہ یہ صحافی اپنے بڑے اداروں کے غیر ملکی صحافیوں اور ڈاکومینٹریز بنانے والے صحافیوں کے ساتھ افغانستان، فاٹا اور دیگر علاقوں میں گئے ہیں اس لئے انہیں افغانستان کے حدود اربع کا پتہ ہے، تھوڑا بہت انہیں پشاور میں کام کا تجربہ ہے تو یہ افغان امور کے ماہر بن گئے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک بندہ پشاور پریس کلب میں بیٹھا صرف افغان تاریخ پڑھ رہا ہو اور دوسرا تاریخ کے ساتھ ساتھ افغانستان کا سفر بھی کرچکا ہو وہاں کی وادی وادی گھوما ہو ۔اسے پشاور سے جلال آباد، کابل، کنڑ، نورستان، قندھار، اور پنج شیر کا پتہ ہو تو وہ بہتر تجزیہ کرسکتا ہے ۔